ایم کیو ایم کا خوف
مسئلہ کراچی ، جی ہاں پھر مسئلہ کراچی ....ہزاروں کی تعداد میں موجود پولیس و رینجرز،پھر سپریم کورٹ وہائی کورٹ کے بعد اب مئی2013ءکے انتخابات کے سامنے بھی سوال بن کر آکھڑا ہوا ہے۔ اگر12مارچ کوچھپنے والے میرے کالم کے مندرجات آپ کے سامنے ہوں، توآپ تعجب کا شکار نہیں ہوں گے، کیونکہ سب کچھ عین توقع کے مطابق ہورہاہے۔ اگر ہم غلاظت کے ڈھیر پر دریاں بچھا کر اور مشک و عنبر سے معطر ماحول تیارکر کے ”محفل میلاد“ کاثواب لینے اور ”پاکیزہ“ کہلانے کی تعریف ہی سمیٹنے پر مصر ہیں، تو یہ ہماری نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب جبکہ صرف تین روز میں ایم کیو ایم نے دو دن ہڑتال کے ذریعہ عوام پر گرفت کی اپنی پرانی آزمودہ تکنیک کو انتخابات پر گرفت کے لئے آزمانے کا مظاہرہ کیا ہے اور ایم کیو ایم کی کال پر دوسری ہڑتال کے بعد اگلے روز اہل کراچی کو اے این پی کے یوم سوگ کا کڑوا گھونٹ بھی حلق سے اُتارنا پڑا ہے، تو انتخابات کے انعقاد کا ابہام پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ مزید گہرا ہو گیا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مزید گفتگو سے قبل 12مارچ کو چھپنے والے کالم کے اس پیراگراف پر نظر ڈالتے چلیں:
”برسوں سے کراچی کا بلبلاتا اونٹ پاکستان کے خیمے میں کسی ایک کروٹ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ شاید لاہور یا اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو مسئلہ کراچی کی سنگینی کا صحیح اندازہ ہے، نہ پوری طرح احساس ہے۔ پشاور اور کوئٹہ کی طرح کراچی کی حیثیت صرف صوبائی دارالحکومت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اپنی معاشی و معاشرتی اہمیت کے سبب پاکستان کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں گزشتہ پانچ سال سے خصوصاً اور اس سے قبل کے15سال سے عموماً سیاسی بالادستی اور دسترس کی جو مورچہ بند نقاب پوش گوریلا جنگ ہورہی ہے اس کا اعتراف حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کی سطح پر بھی کیا گیا ہے“۔
اب آئےے انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے اضطراب کی طرف،ایک بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ ایم کیو ایم انتخابات سے بوجوہ بھاگنے کی کوشش کررہی ہے اور خود اس کی جانب سے میدان چھوڑنے کی تردید کے باوجود اس نے تین دن میں پے درپے دو ہڑتالوں کے ذریعے سٹیج بھی تیار کرلیا ہے، مگر گزشتہ پانچ چھ ماہ سے ایم کیو ایم کی سیاست اور اس کے اندرونی مسائل ومعاملات پر نگاہ رکھنے والے اور عوام کی نفسیات کو پرکھنے پر قادر لوگوں کا خیال دوسرا ہے ۔ان کے خیال میں ایم کیو ایم از خود مسلسل اس طرح اُلجھتی گئی اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتی چلی گئی کہ لا محالہ اس کا اثر اس کے ووٹ بینک پر بھی ہوا لہٰذا وہ موجودہ ماحول میں جب اس کے تمام حریف بہت حد تک یکجا ہوگئے ہیں، شک و شبہ کے ساتھ انتخابات میں اُترنے کا خدشہ مول نہیں لینا چاہتی کہ ایک بار عوامی سطح پر بڑا Rejectionہوگیا، تو پھر معاملات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا اور یہ صورت سیڑھی سے پھسلا، تو پھر پھسلتا چلا گیا والی ہوگی۔
ایم کیو ایم نے جمعرات 8نومبر کو ”طالبان کا پاکستان یا قائد اعظم کا پاکستان“ ؟ کے سوال پر ملک گیر عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا کہ ریفرنڈم سے ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہوگا، لیکن پہلے ریفرنڈم 14 نومبرتک مو¿خر کیا گیا، اس کے بعد اسے نئی تاریخ دیئے بغیر محرم کے سبب ملتوی کردیا گیا،جبکہ ” ملک کی تقدیر “ دور کھڑی ہنستی رہ گئی۔
دسمبر میں عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے آنے والی خبریں ایم کیو ایم کے لئے پریشانی کا باعث بنیںتو دسمبر میں ہی الطاف حسین اور ان کے رفقاءکو تقاریر اور بیانات پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کانوٹس دے کر طلب کرلیا۔
دسمبر کے آخر سے جنوری کے وسط تک ڈاکٹر علامہ طاہر القادری فیکٹر نے سیاست اور صحافت کو گرفت میں لئے رکھا اورحیران کن طور پر شریک اقتدار پارٹی ہونے کے باوجود ایم کیو ایم نے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے خیالات کی تائید کی اور لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کیا،پھر یکم جنوری کو طاہر القادری کراچی تشریف لائے اور ایم کیو ایم کے تحت جناح گراﺅنڈ میں جلسے سے خطاب کیا،تو اس موقع پر الطاف حسین نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں طاہر القادری کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”فوج انقلاب میں رکاوٹ نہ بنے اور تمام سیاسی جماعتیں انقلاب میں شامل ہوجائیں“۔ اگلے روز رحمن ملک نے لندن جاکر الطاف حسین سے بات کی اور کراچی میں گورنر سندھ سے وزیراعظم نے میٹنگ کی۔پھر3جنوری کوصدر آصف علی زرداری نے فون پر الطاف حسین سے بات کی تو انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ایم کیو ایم حکومت کی حمایت جاری رکھے گی،مگر5جنوری کو الطاف حسین نے اگلے 72گھنٹوں میں ”سیاسی ڈرون حملہ“ کرنے کا حیران کن اعلان کردیا۔ پھر72گھنٹے گزرگئے تو 7جنوری کو کہا کہ ”چند پرزے درکار ہیں، سیاسی ڈرون حملے میں ایک دو روز کی تاخیر ہوسکتی ہے“۔
7جنوری کو الطاف حسین کے وکیل نے سپریم کورٹ میں ان کی جانب سے تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا، جس میں الطاف حسین نے توہین عدالت پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگی ۔
خبر تو یہ آئی تھی کہ سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کے قائد کی جا نب سے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی قبول کرلی ہے، مگر بعض لوگوں کے نزدیک سچ یہ تھا کہ الطاف حسین نے سپریم کورٹ کو معاف کر دیا ، وگرنہ توہین عدالت کا صرف نوٹس جاری کرنے کی خبر پر الطاف حسین کی تقریر کے فوراً بعد ایم کیو ایم نے جس رد عمل کا اظہار کیا تھا اس پر پورے ملک کی طرح سپریم کورٹ کو بھی سکتہ ہوگیا تھا اور یوں لگتا تھا کہ 7جنوری کو اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ نے گیلانی کی طرح الطاف حسین کو بھی توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرا دیا تو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ رد عمل کااظہار ہوگا ۔ مقامِ شکر ہے الطاف بھائی نے ”دریادلی“ کا مظاہرہ کیا اور سپریم کورٹ نے بھی ” لڑائی لڑائی معاف کرو....“ کے رویے کا مظاہرہ کرکے گلو خلاصی کرلی۔تاہم اس کے مجموعی سیاسی اثرات سپریم کورٹ سے زیادہ ایم کیو ایم کے حق میں بہتر نہیں رہے ۔
11جنوری کوجب کوئٹہ اور سوات میں دھماکوں سے تقریباً 120افراد ہلاک اور250سے زیادہ زخمی ہونے اورکراچی میں ایک درجن افراد ٹارگٹ کلنگ میں لقمہ اجل بن جانے کے سبب پورے ملک کی فضا سوگوار تھی، الطاف حسین نے کارکنوں سے خطاب میں اپنا موعودہ ”ڈرون حملہ“ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر گورنر سندھ کو ہٹانا چاہتی ہے، تو آج ہٹادے، ہم ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں شرکت ضرور کریں گے۔ الطاف حسین نے قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کے بارے میں کہا کہ انہوں نے برطانوی بادشاہ سے وفاداری کاحلف اُٹھایا تھا، ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ”سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے اس لئے دھونس دھمکی برداشت کررہے ہیں“.... اس کے علاوہ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے پوچھا: ” کیا اگلی فلائٹ سے پاکستان آجاﺅں؟ “ تو کارکنوں نے چیخ چیخ کر کہا ”نہیں بھائی نہیں“۔الطاف حسین کے اس خطاب پر میڈیا اور سیاستدانوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور قائداعظم ؒ کو متنازعہ بنانے پر سب نے افسوس کا اظہار کیا ۔ سندھی قوم پرستوں نے تقسیم سندھ کے حوالے سے الطاف حسین کے بیان کو سندھ پر ڈرون حملہ قرار دیا اور تمام سندھ میں احتجاج کا اعلان کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ قائد اعظم ؒ کے بارے میں منفی بات کرنا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے اور چودھری نثار نے کہا کہ الطاف حسین نے ڈرون نہیں خودکش حملہ کیا اور خوداس کا شکار ہوگئے۔ اس رد عمل پر رابطہ کمیٹی نے وضاحت کی کہ الطاف حسین نے قائداعظم ؓ کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے آخری وقت میں اچانک ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔
پھر اگلے روز12جنوری کوالطاف حسین نے فون پر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سے کہا کہ ”لانگ مارچ میں شریک نہیں لیکن میرادل اور ایم کیو ایم کااخلاقی تعاون آپ کے ساتھ رہے گا“۔اس روز قائداعظم ؒ کے خلاف الطاف حسین کی تقریر کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دی گئی، جس میں ایم کیو ایم کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگانے کی استدعا کی گئی تھی۔
2فروری کو ایم کیو ایم کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ”اختلافی امور“ حل ہونے تک الطاف حسین پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ الطاف حسین ، صدر سے پوچھیں گے کہ 5سال میں ہمیں کیا ملا؟
3فروری کو الطاف حسین علیل ہوگئے جبکہ رحمن ملک نے لندن میں ایم کیو ایم کے سیکرٹریٹ کا دورہ کیا، جس روز 16فروری کو کوئٹہ میں ملک کی تاریخ کاسب سے بڑا خود کش دھماکہ ہوا، اسی روز ایم کیو ایم نے کراچی میں سیاسی دھماکہ کیا اور4سال 11ماہ تک شریک اقتدار رہنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت سے علیحدگی اور پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کااعلان کردیا۔ فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی پر ”جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی“ کا الزام لگایا۔
20فروری کو اسلام آباد میں صدر زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ اور سندھ سے پارٹی کے لیڈروں خورشید شاہ، نوید قمر ، ہزار خان بجارانی، پیرمظہرالحق ،آغاسراج درانی اور شرجیل میمن سے خصوصی مشاورت کی،جس کے اگلے روز 21فروری کوسندھ اسمبلی میں اچانک 2012ءکا متنازعہ بلدیاتی نظام واپس لینے اور 1979 کا پرانا بلدیاتی اور کمشنری نظام بحال کرنے کا بل منظور کرلیا گیا، جس پر ایم کیو ایم نے شدید احتجاج کرتے ہوئے واک آﺅٹ کیا ، جبکہ پیپلزپارٹی نے جشن منایا ، مگر سندھی قوم پرستوں نے اسے اپنی اور عوامی جدوجہد کی فتح قراردیا ۔ 22فروری کو گورنر عشرت العباد مستعفی ہوکر دبئی چلے گئے توقائم مقام گورنر نثار کھوڑونے 1979کے بلدیاتی نظام کے بل پر دستخط کرکے اسے نافذ کردیا ۔25فروری کو صدارتی ترجمان نے دبئی میں صدر اور گورنر سندھ کی ملاقات کی تردید کی، مگر 28 فروری کو گورنر عشرت العبادوطن واپس آگئے، جس کاپیپلزپارٹی نے خیر مقدم کیا اور وزیراعلیٰ نے اپنے وزراءکے ساتھ اُن سے میٹنگ کی ، دوسری طرف الطاف حسین نے کہا کہ ملک کے مفاد میں عشرت العباد کو دوبارہ گورنرکی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی ہے ۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ”پیپلز پارٹی والے ہوش کے ناخن لیں،پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لاسکتے ہیں تو اس کی چھٹی بھی کراسکتے ہیں“۔
2مارچ کو رحمن ملک نے لندن جاکرالطاف حسین سے اور گورنر عشرت العباد نے لاہور جا کر صدر آصف علی زرداری سے میٹنگ کی ۔ پھر 3مارچ کو عشرت العباد نے وزیراعظم سے میٹنگ کی۔ اسی روز کراچی بد ترین دہشت گردی کانشانہ بنا اور عباس ٹاﺅن میں بم دھماکوں سے 48افراد جاں بحق اور 200سے زیادہ زخمی ہوگئے، 6مارچ کو ایم کیو ایم نے سانحہ عباس ٹاﺅن کے ذمہ داروں کی گرفتاری کے لئے حیران کن طو رپر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی کال دے دی اور جب شدید فائرنگ اور بھگدڑ کے بعد کراچی ، حیدرآباد سمیت سندھ کے متعدد شہر بند ہوگئے، تو چند گھنٹے بعد یہ کال واپس بھی لے لی گئی۔
از خوداُلجھنے اورپیچھے ہٹنے کی چار پانچ ماہ کی کہانی کا یہ سرسری جائزہ ہے اورایسالگتا ہے کہ وہ تنظیمی خلفشار اورسیاسی محاذ پر پے درپے ہزیمت اور پیچھے ہٹنے کے بعداب اس خوف کا شکارہے کہ 2013ءکے عام انتخابات میں خدانخواستہ نتائج توقع کے مطابق نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ ٭