دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ تیرہویں قسط
چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل بدترین اخلاقی انحراف کا شکار تھے اور اسی بنا پر اپنے زمانے کی سپر پاور عراق کے حکمران بخت نصرکے ہاتھوں سیاسی مغلوبیت کے خدائی عذاب میں مبتلا ہوچکے تھے۔ مگر ان کے لیڈروں نے قوم کی اصلاح کرنے کے بجائے ان کے ہاں سیاسی غلبے کی سوچ عام کردی۔ یرمیاہ نبی نے بنی اسرائیل کو ان کی اخلاقی اور ایمانی گمراہیوں پر متنبہ کیا اور انھیں سمجھایا کہ وقت کی سپر پاور سے ٹکرانے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔ مگر ان کی قوم نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر بخت نصر کے خلاف بغاوت کردی۔ اس کے بعد بخت نصر عذاب الٰہی بن کر نازل ہوا اور اس نے یروشلم (بیت المقدس) کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ چھ لاکھ یہودی قتل ہوئے اور چھ لاکھ کو وہ غلام بناکر اپنے ساتھ لے گیا۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ بارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اسی سوچ میں تھا کہ نحور نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’انشاء اللہ ان سے بھی جلد ملاقات ہوجائے گی۔ مگر سردست تو میں آپ کو کسی اور سے ملوانا چاہتا ہوں۔‘‘، یہ کہتے ہوئے انہوں نے دوسرے خیمے کی طرف رخ کرکے کسی کو آواز دی:
’’ذرا باہر آنا! دیکھو تو تم سے کون ملنے آیا ہے؟‘‘
نحور کی آواز کے ساتھ ہی ایک لڑکی خیمے سے نکل کر ان کے برابر آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ لڑکی اپنے حلیے سے کوئی شہزادی اور شکل و صورت میں پرستان کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ اس لڑکی نے گردن جھکاکر مجھے سلام کیا اور مجھے مخاطب کرکے کہا:
’’آپ مجھے نہیں جانتے۔ مگر میرے لیے آپ میرے استاد ہیں اور اس رشتے سے میں آپ کی روحانی اولاد ہوں۔ میرا نام شائستہ ہے۔ گمراہی کے اندھیروں میں خدا کے سچے دین کی روشنی میں نے آپ کے ذریعے سے پائی تھی۔ خدا سے میرا تعارف آپ نے کرایا تھا۔ خدا کے ساتھ انسان کا اصل تعلق کیا ہونا چاہیے، یہ میں نے آپ ہی سے سیکھا تھا۔ آج دیکھیے! خدا نے مجھ پر احسان کیا اور اب میں ایک عظیم نبی کے صحابی کی بیوی بننے جارہی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر قبل صالح نے اسی لڑکی کو مجھے دکھایا تھا۔ مگر اب اس کی حالت میں جو انقلاب آچکا تھا اسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ لیکن اسے اس طرح دیکھ کر مجھے جتنی خوشی ہوئی، اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے شائستہ سے کہا:
’’میری طرف سے آپ دونوں دلی مبارکباد قبول کیجیے۔ امید ہے کہ آپ مجھے اپنی شادی میں بھی یاد رکھیں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں۔ آپ کو تو بلانے کا مقصد ہی نحور کو یہ بتانا تھا کہ میرے میکے والے کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’پھر تو آپ نے غلط شخص کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
میں نے فوراً جواب دیا۔ پھر اپنا رخ نحورکی طرف کرتے ہوئے کہا:
’’ لیکن شائستہ کی بات بالکل درست ہے۔ ان کے میکے کے لوگ معمولی نہیں۔ اور ہوبھی کیسے سکتے ہیں۔ شائستہ امت محمدیہ میں سے ہیں۔ نبی عربی کی نسبت کے بعد ان کا میکہ معمولی نہیں رہا۔‘‘
اس موقع پر صالح نے مداخلت کی اور کہا:
’’آپ لوگوں کی مرتبہ و منصب کی اس بحث کا فیصلہ بعد میں ہوتا رہے گا۔ سر دست مجھے عبداللہ کو واپس لے کر جانا ہے۔ اس لیے ہمیں اجازت دیجیے۔‘‘
نحور اور شائستہ سے اجازت لے کر ہم دونوں وہاں سے رخصت ہوگئے۔واپسی پر صالح مجھ سے بولا:
’’ہوگیا نا تمھارے دکھ کا مداوا؟‘‘
میں نے خدا کی اپنے بندوں پر عنایات کا جو مشاہدہ ابھی کیا تھا اس نے میری قوت گویائی سلب کرلی تھی۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ یہ لڑکی اپنے صبر کی وجہ سے اس مقام تک پہنچی ہے۔ خدا نے اس لڑکی کو سخت حالات اور معمولی شکل و صورت کے ساتھ آزمایا تھا۔ مگر اس نے محروم ہونے کے باوجود صبر، شکر اور سچی خدا پرستی کی راہ اختیار کی تھی۔ اور آج تم نے دیکھ لیا کہ جو پچھلی دنیا میں پانے سے محروم رہ گئے، ان کا صبر آج انھیں کس بدلے کا مستحق بنارہا ہے۔‘‘
میں چلتے چلتے رکا۔ اپنی نظریں اٹھاکر آسمان کو دیکھا، آسمان والے کو دیکھا اور پھر اپنی گردن جھکالی۔(جاری ہے)
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)