سعودی حکمران ،شاہ امان اللہ کے نقش قدم پر!
افغانستان کے شہر جلال آباد میں واقع سراج الامارت، افغان صدر شاہ امان اللہ کا عالی شان رہائشی محل تھا، جسے 1929ء میں تباہ کر دیا گیا۔ آج یہ آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس خستہ حال عمارت میں ہر دور کے حکمرانوں کے لئے عبرت کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔
اس شاہی محل کے ساتھ ہی ایک باغ بھی ہے، جس میں شاہ امان اللہ کی قبر موجود ہے ۔شاہ امان اللہ خان اپنی صدارت کے دوران یورپ کے دورے پر گیا تو واپسی پر اس نے افغانستان کو پلک جھپکتے یورپ بنا دینا چاہا تھا۔ کابل پہنچ کر اس نے اپنے مشیروں سے کہا کہ مَیں فی الفور افغانستان کو یورپ کی طرح جدت پسند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہوں۔اس کے ایک مشیر، مولوی محمد بشیر نے کہا کہ ’’آپ کی سوچ بہت عمدہ ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کے لئے کم ازکم پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے ‘‘۔
یہ سُن کر شاہ امان اللہ سخت طیش میں آ گیا اور اسی وقت مولوی بشیر کو بُرا بھلا کہہ کر محل سے باہر نکلوا دیا۔باقی مشیروں سے اس نے کہا کہ مجھے برسوں میں نہیں ہفتوں میں افغانستان کو جدت پسند اور ماڈرن بنانا ہے ۔
اس نے ایک صدارتی فرمان جاری کیا، جس کے مطابق آئندہ فوج کا کوئی سپاہی کسی پیر یا شیخ کا مرید نہیں بنے گا ۔شاہ نے لکھا کہ اگر کسی نے بیعت کرنی ہے تو میرے ہاتھ پر کرسکتا ہے ۔
اس فرمان میں کہا گیاکہ حکومت اور فوج کے تمام لوگ اپنی داڑھیاں شیو کر وادیں، جبکہ عوام کے اندر جو لوگ داڑھیاں شیو کروائیں گے ،انہیں سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ترجیح دی جائے گی۔
اس صدارتی فرمان میںیہ بھی حکم دیا گیا کہ آیندہ تمام سرکاری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم دی جائے گی ۔ لڑکا ، لڑکی ایک ہی ڈیسک پربیٹھ کر تعلیم حاصل کریں گے ۔
اس کے علاوہ اس فرمان میں یہ بھی لکھا موجود تھا کہ افغان عورتیں ٹوپی دار برقع کی جگہ سر پرصرف سکارف لیں گی ۔شاہ امان اللہ کے اس فرمان پر پورے افغانستان میں شدید رد عمل سامنے آیا ۔
کابل کے ایک نامور عالم دین مولوی عبد الجلیل خان نے شاہ امان اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: ’’آپ کے تمام احکامات شریعتِ محمدی کے سراسر خلاف ہیں،اِس لئے اپنا صدارتی فرمان فوراً واپس لیں ،ورنہ اس فرمان کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی ‘‘۔
شاہ امان اللہ خان ، مولوی عبد الجلیل کی اس گستاخی اور سرکشی پر آپے سے باہر ہو گیا اور اپنے خصوصی سکواڈ کو حکم دیا کہ ’’ اس مولوی کو اسی وقت توپ دم کر دیا جائے ۔ ‘‘( کسی بندے کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولہ فائر کیا جاتا ہے، جس سے اس کے جسم کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں ، اسے توپ دم کرناکہا جا تا ہے)۔
شاہ کا یہ حکم سن کر تمام اہلِ دربار پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ سب وزراء اور مشیروں نے دبے الفاظ میں ڈرتے ڈرتے اس حکم پر نظر ثانی کی درخواست کی، لیکن شاہ امان اللہ نے کسی کی ایک نہ سُنی اور اسی روز مولوی عبد الجلیل کو توپ دم کر دیا گیا ۔اس ظلم پر کابل میں علماء اور عوام نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو فوج کو حکم دے دیا گیا کہ جو سڑک پر دکھائی دے اسے گولی مار دی جائے۔اس آرڈر کے بعد کابل میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
امان اللہ خان کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان ، یورپ تو نہ بن سکا البتہ وہ خود ابدی نیند سونے کے لئے سراج الامارت ، جلال آبا د پہنچ گیا۔ اس وقت قبر کے اندر امان اللہ کی ہڈیاں بھی شاید گل گئی ہوں گی۔
آج اس قبر کو دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں زمین کے نیچے وہ دفن ہے،جو اقتدار کے نشے میں زمین کا خدا بن کر زندگی اور موت کے فرمان جاری کرتا تھا۔
تقریباً سو سال پہلے تک سراج الامارت ایک شاہی محل تھا، جس کے باغات میں بادشاہ اور اس کے حرم کی خواتین بہت شان اور تکبر کے ساتھ سیر و تفریح کرتی ہوں گی، لیکن آج اس کے پائیں باغ کی پراسرار خاموشی چیخ چیخ کر کہتی محسوس ہوتی ہے:کل من علیھا فان۔
ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔ ’’جو کچھ بھی ہے دُنیا میں سب فنا ہونے والاہے،باقی اور ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اور صرف اللہ ر ب العزت ہی کی ہے ‘‘۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ خدائی پیغام سننے اور سمجھنے کے لئے نہ پہلے کوئی دنیا پرست حکمران تیار تھا اور نہ آج سعودی عرب کی مسندِ اقتدارپر بیٹھنے والاشاہ سلمان اور اس کا اسلام بیزار بیٹا محمد بن سلمان ایسا صاحبِ دیدہ و بینا ہے ،جو اس درسِ فنا کو سمجھ کر اپنے اقتدار کو دوام دینے کی بجائے اسلام کے مرکز کو اپنے اقتدار کے بدلے بے توقیر کرنے سے باز آ جائے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی افغان صدر امان اللہ کی طرح پورے سعودی عرب کو بیک جنبش قلم مغربی رنگ میں ڈھال دینے کو بے چین ہے، لیکن وہ شاید بھول گیا ہے کہ سعودی عرب، افغانستان نہیں، بلکہ دو ارب کے قریب مسلمانوں کی روحانی قوت کا مرکز و محورہے۔ وہاں مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کے حوالے سے آنے والی خبروں پر دُنیا کے ہر خطے کا مسلمان مضطرب و بے قرار ہے۔
سعودی حکمرانوں کو مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں،وہ سعودی عرب کو ’’عرب بہار‘‘ کا اگلا ہدف بننے سے بچانے کے لئے امریکہ اور مغرب کے ہر ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے جا رہے ہیں۔اپنے اقتدار کو طول دینے کے اس کھیل میں سعودی حکمران آل سعود کی تاریخ کے سب سے پست درجے تک گر چکے ہیں، جس مقدس سرزمین پر حرمین شریفین کا وجود ہے، جہاں کی مقدس زمین سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی امین ہے، جہاں اصحاب رسول و اہل بیت اطہار کی روشن زندگیوں کے نقوش ہر سو پھیلے ہوئے ہیں ، جس سر زمین سے اسلام کی کرنیں شرق و غرب، شمال و جنوب میں پھیلیں،آج وہ مبارک سرزمین خوفناک نظریاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔
اپنی بادشاہت کے دوام کے لئے شاہ سلمان اور اس کا بیٹا محمد بن سلمان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے نکلنے والے ہر حکم ، ہر اشارے ، ہر کنائے پر عمل درآمد کرنے کو بے تاب و مستعد ہیں ۔
امریکا و یورپ مسلمانوں کے روحانی مرکز کو لبرل اور مادر پدر آزاد بنا کر بے توقیر کر دینا چاہتے ہیں۔ افغان صدر امان اللہ کی طرح سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ ایک ہی شاہی فرمان کے ذریعے پورے سعودی عرب کو مغربی کلچر میں رنگ دے۔
اِس حوالے سے اس کی جسارتیں عروج پر ہیں ۔ پہلے سعودی عرب میں ایک بھی سینما نہیں تھا، محمد بن سلمان نے دارالحکومت ریاض میں سینما بنا ڈالا اور 18اپریل کو ’بلیک پینتھر‘ نامی فلم اس سینما میں چلا کر حکومتی سرپرستی میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔یہی نہیں، بلکہ 2030ء وژن کے تحت سعودی عرب میں 300 بڑے اور 3000چھوٹے سینما گھر بنانے کا پروگرام بھی شامل ہے۔
پہلے سعودی عرب میں خواتین پر کئی طرح کی شرعی پابندیاں عائد تھیں ، محمد بن سلمان نے یہ تمام پابندیاں یکے بعد دیگرے ختم کر ڈالیں۔ سعودی عرب پہلے جوا خانہ نہیں تھا،اس نے جگہ جگہ جوئے کے اڈے کھلوا دئیے۔ سعودی عرب پہلے فلسطینی مسلمانوں کا پشتیبان تھا ، لیکن اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان امریکا نوازی میں فرما رہے ہیں کہ اسرائیلیوں کو اپنی زمین پر رہنے کا پورا حق حاصل ہے ، ساتھ ہی اسرائیل کو سعودی عرب کا فضائی روٹ استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ پہلے سعودی عرب میں میوزک کنسرٹ کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا،لیکن حال ہی میں دارالحکومت ریاض کے اندر حکومتی سرپرستی میں یونانی خاتون گلوکارہ کا میوزیکل کنسرٹ کروا کر اس بے ہودگی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے۔
سعودی حکومت کے وژن 2030ء کے تحت بحر احمر کے ساحل پر 26ہزار 500مربع کلومیٹر رقبے کا حامل ’’ نیوم سٹی ‘‘ کے نام سے ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ شروع ہے ، جس کے انفر اسٹرکچر اور آباد کاری پر 500ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔
’’نیوم سٹی‘‘ دُنیاکا سب سے بڑا جدید ترین عیاشی اور فحاشی کا مرکز ہو گا،جہاں دنیا جہاں کے سیاحوں کو ہر طرح کی آزادی اور سہولت حاصل ہوگی ۔ فیس سیونگ کے لئے سر دست یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ اس نئے شہر کو کاروبار کا مرکز بنایا جائے گا اور اس شہر کی تعمیر سے تجارت کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔
تبدیلی کا زیادہ فوکس عورت سے اسلامی طرزِ حیات چھین کر اسے جنس بازار بنا دینے پر ہے ۔ سعودی عرب میں پہلے خواتین بغیر حجاب کے باہر نہیںآسکتی تھیں ، اب حجاب کی پابندی ختم کر کے بناتِ اسلام سے اسلامی تشخص چھیننے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ پہلے سعودی عرب میں مخلوط تعلیم بھی نہیں تھی، لیکن اب شاہی فرمان کے ذریعے مخلوط تعلیم کی اجازت دے دی گئی ہے۔
یہ وہی سعودی عرب ہے،جہاں بادشاہ سے ملاقات کے لئے برطانیہ کی ملکہ کو حجاب پہننا پڑا تھا ، جبکہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ شاہ سلمان، ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی اور بیٹی سے نہ صرف جھک کر مصافحہ کرتے پائے گئے۔
مارچ میں برطانیہ او رامریکہ کے تفصیلی دورہ سے واپسی کے بعد محمد بن سلمان کی ان مغرب نواز پھرتیوں میں شدت اور تیزی آگئی ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ان کے اندر افغان صدر شاہ امان اللہ کی روح حلول کر گئی ہے۔
شہزادہ محمد کی یہ مغرب نوازی اور آزاد خیالی سعودی علماء اور دیندار طبقہ کو بری طرح کھٹک رہی ہے۔موجودہ سعودی حکمرانوں کی اس اسلامی تہذیب و اقدار سے نفرت اور مغربی کلچر سے اندھی محبت کا انجام کیا ہوگا ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ ان کا خاتمہ بھی افغان صدر شاہ امان اللہ سے مختلف نہیں ہو گا۔