ابوبکرؓ کے انتقال کے بعد میں عمرِ فاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں جہادِ شام میں شریک ہو گیا اور رومیوں کے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا۔ یہ معرکے ختم ہوئے تو یہیں شام ہی کے علاقے خولان میں سکونت اختیار کر لی۔ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ فرما رہے تھے:
’’بلال، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہمیں ملنے آؤ‘‘۔
میں تڑپ کر رہ گیا اور فوراً رختِ سفر باندھ لیا۔ مدینے میں داخل ہوا۔ بے تابی عروج پر تھی۔ سیدھا روضہء اقدس پر پہنچا اور اس قدر رویا کہ لگتا تھا اب یہاں سے اُٹھنا نہیں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسنؓ اور حسینؓ بھی میری خبر سن کر روضہء رسولؐ پر پہنچ گئے۔ اُن کو دیکھ کر کیا کیا یاد آ گیا۔ اُن کا منہ، سر، ماتھا چوما اور بار بار انہیں سینے سے لگا کر پیار کیا۔ انہوں نے خواہش کی کل صبح آپ حرمِ نبوی میں اذان دیں۔ میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشوں کی خواہش کیسے ٹال سکتا تھا۔ سارے شہر کو خبر کر دی گئی کہ بلال کل فجر کی اذان دیں گے۔ صبح اذان دی تو سارا مدینہ اذان سننے کے لئے اُمڈ آیا۔ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں، اُن کی بھی جنہوں نے دورِ نبوی میں میری اذانیں سنی تھیں اور اُن کی بھی جنہوں نے صرف میرا نام سن رکھا تھا۔ میں خود بھی زاروقطار رو رہا تھا۔ اذان دیتے وقت جب میں نے شہادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات کہتے ہوئے روضہء مبارک کی طرف انگشتِ شہادت کا اشارہ کیا تو گویا یہ اشارہ میری آواز میں شامل ہو گیا۔ گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین بھی جو میری اذان سن رہی تھیں، بے تاب ہو کر گھروں سے نکل آئیں۔ لوگوں نے کہا نبیِ کریمؐ کے یومِ وفات کے بعد مدینے میں ایسا دلدوز منظر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ میری آخری اذان تھی۔ میری اذان کی ابتدا بھی اسی مسجد سے ہوئی تھی، انتہا بھی وہیں ہوئی۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فتحِ شام
ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے ابتدائی دور ہی میں جگہ جگہ فتنہِ ارتداد نے سر اٹھا لیا تو خلیفہ اول نے اس کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ پوری تند ہی سے دس ماہ اس فتنے کا سر کچلنے میں مصروف رہے۔ ہر ممکن تدبیر اختیار کی۔ جہاں سمجھانے بجھانے سے بات بنی وہاں نہایت بردباری اور کمال فراست سے لوگوں کے وسوسے دور کیے اور جہاں سختی ناگزیر تھی وہاں پوری طاقت سے اس فتنے کی بیخ کنی کی، یہاں تک کہ امن و امان ہو گیا۔ ابوبکر صدیقؓ کو ہم لوگ نہایت متین، خاموش طبع، نرم خو اور بہت دھیمے مزاج کے انسان کی حیثیت سے جانتے تھے مگر اس معرکے میں ان کے کردار کا ایک آہنی پہلو بھی سب کے سامنے آیا جو حد سے گزر جانے والوں کے لیے کسی رو روعایت کا متحمل نہیں تھا۔ اسی عرصے میں شام کی طرف سے کچھ لوگوں کو شہ ملی اور ادھر سے مسلمانوں کے خلاف پے در پے چھوٹی چھوٹی معرکہ آرائیاں شروع ہو گئیں۔ دشمنانِ اسلام شاید سمجھتے ہوں کہ اسلام کے سربراہ تو اپنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں، کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ابوبکر صدیقؓ نے اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا اور اپنے چند مقتدر اور صائب الرائے ساتھیوں کے مشورے سے طے کیا کہ شام کو من مانیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فراستِ صدیقی یہ گوارہ نہیں کر سکتی تھی کہ شام کے مختلف علاقوں سے رومی اپنی طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو مرعوب کرتے رہیں۔ چنانچہ ابوبکر صدیقؓ نے شام پر مختلف اطراف سے لشکر کشی کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا۔ کئی لشکر ترتیب دیے اور ان کے امیروں کو ہدایت کی کہ اگر میدانِ جنگ میں کبھی سب کو یکجا ہونا پڑے تو ابوعبیدہ بن الجراحؓ ان کے سپہ سالارِ اعلیٰ ہوں گے۔
ابوعبیدہؓ اپنے مختصر سے لشکر کے ساتھ شام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رومی جنگ بازوں کو ہر جگہ جنگ کے لیے تیار پایا۔ اس کے باوجود وہ بصریٰ اور مآب کو تسخیر کرتے ہوئے جابیہ پہنچ گئے اور وہاں سے رومیوں کی زبردست جنگی تیاریوں کے بارے میں ایک تفصیلی خط مدینے روانہ کیا۔ خط ملتے ہی ابوبکر صدیقؓ نے امدادی فوج بھیجنے کا اہتمام کیا۔ سیف اللہ خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ فوراً عراق سے شام پہنچیں۔ اردگرد کے دوسروں محاذوں پریزید بن ابی سفیانؓ، شرحبیل بن حسنہؓ اور عمرو بن العاصؓ کو بھی اپنے اپنے لشکر لے کر ابوعبیدہؓ کے پاس جانے کی ہدایت کی۔ یہ سب لشکر جابیہ پہنچ گئے تو ابوعبیدہؓ نے اجنادَین کا رُخ کیا جہاں رومیوں کا ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں پر حملے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اِجنادَین کے قریب فریقین کے درمیان گھمسان کا رَن پڑا اور بالآخر رومیوں کی عددی قوت مسلمانوں کے جوشِ جہاد کے آگے سرنگوں ہو گئی اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب یہ خبر مدینے پہنچی تو میں صدقات اور خیرات کی تقسیم کے سلسلے میں خلیفہ اسلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ یہ خوشخبری سنتے ہی انہوں نے بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سجدۂ شکر بجا لائے۔ اس عظیم الشان، تاریخی کامیابی پر سارے مدینے میں جیسے خوشیوں کی بارش ہو گئی۔
اِجنادَین کی فتح کے فوراً بعد ابوعبیدہؓ اور خالد بن ولیدؓ کے لشکروں نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ ابھی جاری تھا کہ خلیفہ اول نے وفات پائی اور عمر بن خطابؓ مسند نشینِ خلافت ہوئے۔
عہدِ فاروقی کے اوائل میں ایک روز خالد بن ولیدؓ موقع پا کر فصیلِ شہر پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اندر سے شہر کا پھاٹک کھول دیا۔ ابوعبیدہؓ فوراً اپنے لشکر سمیت شہر کے اندر داخل ہو گئے۔ اہلِ دمشق نے ہتھیار ڈال دیے اور صلح کے طالب ہوئے۔ یوں دنیا کے قدیم ترین شہر دمشق پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ دمشق رومیوں کے ہاتھوں سے چلا تو گیا مگر صحرا نشینوں کے ہاتھوں شکست رومیوں کی انا کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی۔ رومی پچاس ہزار کا لشکر لے کر اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ بیسان میں جمع ہو گئے۔ مسلمانوں کی تعداد نصف سے کم تھی لیکن ان کا جذبہ جہاد پھر کام آیا۔ انہوں نے رومیوں پر اس قدر شدید حملے کیے کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر ان کا غرور خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا تو انہوں نے یکے بعد دیگرے مرج الروم، حمص، حماۃ، شیزر، معرۃ النعمان اور کئی دوسرے مقامات پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ابوعبیدہؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا لشکر رومیوں کے مضبوط مرکز لاذقیہ کی طرف بڑھا جہاں ابوعبیدہؓ کا حسن تدبیر کام آیا اور اس شہر پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ پے در پے شکستوں سے قیصر روم تلملا اُٹھا۔ اس نے اپنے تمام مقبوضات سے فوجیں طلب کر کے انطاکیہ میں جمع کر لیں۔ اب یہ رومی لشکر تقریباً دو لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا۔ اس کے مقابلے کے لئے مسلمانوں نے بھی شام کے مختلف شہروں سے فوجیں بلوا لیں اور ساتھ ہی مدینے سے کمک طلب کر لی۔ شام میں موجود مسلمان فوجیں دریائے یرموک کے کنارے ایک مقام پر جمع ہو گئیں۔ اسی عرصے میں مدینے سے کمک بھی آ پہنچی لیکن اب بھی ہماری تعداد تیس اور چالیس ہزار کے درمیان تھی۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں