ٹکٹ کلکٹر نے تھپکی دی کہ آپ کا اسٹیشن آرہا ہے پلیزاتر جائیں،عرفان خان کا خط ایک بار پھر ان کے مداحوں کو رلا گیا

ٹکٹ کلکٹر نے تھپکی دی کہ آپ کا اسٹیشن آرہا ہے پلیزاتر جائیں،عرفان خان کا خط ...
ٹکٹ کلکٹر نے تھپکی دی کہ آپ کا اسٹیشن آرہا ہے پلیزاتر جائیں،عرفان خان کا خط ایک بار پھر ان کے مداحوں کو رلا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ممبئی(ڈیلی پاکستان آن لائن)‘‘مجھے یقین ہے میں سرنڈرکردوں گا’’یہ ان دردناک الفاظ میں سے کچھ ہیں جو لیجنڈاداکار عرفان خان نے دوہزار اٹھارہ میں اپنے دوست کو لکھے ہوئے ایک خط میں اپنی بیماری کا ذکرکرتے ہوئے اداکیے تھے۔ یہ خط بھارتی میڈیا میں بھی شائع ہوا تھا۔ آج ان کے انتقال کی خبرنے ایک بار پھر ان کا خط ان کے چاہنے والوں کورلا گیا۔انھوں نے خط میں لکھا تھا کہ اس دنیا میں 'غیر یقینی ہی یقینی ہے' اور یہ کہ وہ بہت سے منصوبے اور خواب لیے اپنی ہی ترنگ میں تیزی سے چلتے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ٹکٹ کلکٹر نے پیٹھ پر تھپکی دی کہ 'آپ کا سٹیشن آ رہا ہے پلیز اتر جائیں۔' انھوں نے مارچ دوہزار اٹھارہ کے اوائل میں اپنے ایک پوسٹ میں اپنی ایک نادر کینسر کی بیماری کا ذکر کیا تھا کہ انھیں وہ مرض لاحق ہو گیا ہے۔ انھوں نے لکھا ’چند ماہ قبل اچانک مجھے پتہ چلا کہ مجھے نیورو اینڈرو کرائن نامی کینسر کا مرض لاحق ہے۔ میں نے پہلی بار اس مرض کے بارے میں سنا تھا۔ تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ اس پر بہت زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ چونکہ یہ ایک نادر جسمانی حالت کا نام ہے اس لیے اس کے علاج بھی غیر یقینی ہے۔۔۔‘ بی بی سی کے مطابق عرفان خان نے مزید لکھا کہ انھیں ’اچانک احساس ہوا کہ وہ کسی نامعلوم سمندر میں ایک ایسے کاک کی طرح بہ رہے ہیں جس پر ان کا کوئی قابو نہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ درد کی گرفت میں ہیں۔ ’کچھ ہفتوں بعد میں ایک ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ بے انتہا درد ہو رہا ہے۔ یہ معلوم تھا کہ درد ہوگا لیکن ایسا درد۔۔۔ اب درد کی شدت محسوس ہو رہی ہے۔ نہ کوئی ڈھارس نہ کوئی دلاسہ۔ ساری کائنات اس درد میں سمٹ آئی ہے۔ درد خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا ہے۔‘ ہسپتال سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ’میں جس ہسپتال میں ہوں اس میں بالکنی بھی ہے، جہاں سے باہر کا منظر نظر آتا ہے۔۔۔ سڑک کے ایک جانب میرا ہسپتال اور دوسری جانب لارڈس کا میدان ہے۔۔۔ وہاں ووین رچرڈز کا مسکراتا پوسٹر لگا ہے۔ میرے بچپن کا مکہ۔ پہلی نظر اس پر پڑی تو مجھے کوئی احساس ہی نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں۔۔۔‘ ’اور پھر ایک دن احساس ہوا کہ میں ایسی کسی چیز کا حصہ ہی نہیں ہوں جو کسی چیز کے یقینی ہونے کا دعوی کرے۔ نہ ہسپتال نہ سٹیڈیم۔۔۔ دل نے کہا کہ صرف غیر یقینی ہی یقینی ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ امید و بیم کے درمیان انھیں ایک عجیب قسم کی آزادی کا پہلی بار احساس ہوا جس نے انھیں خود سپردگی اور بھروسے کے لیے تیار کیا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سفر میں ان کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کی دعائیں ہیں جن میں ان کے جاننے والے اور نہ جاننے والے تمام شامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'لوگوں کی اجتماعی دعا سے پھوٹنے والی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کراتی ہے۔احساس ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ لہروں پر ڈھکن کا قابو ہو جیسے آپ قدرت کے پالنے میں جھول رہے ہوں۔' انہوں نے یہ بھی لکھا کہ انہیں یقین ہے کہ وہ سرنڈر کردیں گے۔

مزید :

تفریح -