کیا توہین عدالت ہو گئی؟

 کیا توہین عدالت ہو گئی؟
 کیا توہین عدالت ہو گئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ملک میں جو سیاسی افراتفری مچی ہوئی ہے، اس سے ہر کوئی پریشان ہے۔ اگر کوئی فکر مند نہیں تو ہمارے سیاسی رہنما ہیں، جو سیاست کو بھی سانپ اور سیڑھی کا کھیل بنائے کھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ لاہور میں ہوتے یہ نظارہ ہوتا ہے کہ عدلیہ کی مصروفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس نصرمن اللہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ سیاسی امور میں عدلیہ کو ملوث نہ کریں اور آپس میں فیصلہ کیا کریں، یہ درست بھی ہے جو حضرات عوام اور ملک کو درست کرنے کے لئے انتخاب لڑ کر رکن منتخب ہوتے ہیں، وہ آپس کے فیصلے خود نہیں کر پاتے۔ اس کے لئے عدالتوں سے ہی رجوع کیا جاتا ہے۔ نہ صرف لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد کی عدالت عالیہ بلکہ عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی کئی ایسے امور زیر سماعت ہیں جو یہ حضرات آپس میں بھی طے کر سکتے ہیں، لیکن یہ آرزو خاک میں مل جاتی ہے۔
قارئین کرام! قوم بالخصوص پنجاب کے عوام منتظر ہیں کہ نو منتخب وزیراعلیٰ کب حلف لیتے ہیں، گزشتہ روز (بدھ) لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی نے ایک بار پھر ہدایت کی کہ گورنر پنجاب 28اپریل تک حمزہ شہباز شریف سے حلف لیں، اگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو صدر کسی اور کو نامزد کریں جو حلف لے۔ یہ ہدائت تیسری درخواست پر پھر دی گئی کہ درخواست گزار حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ گورنر حلف کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل اویس کا موقف ہے کہ گورنر کو آئینی تحفظ حاصل ہے جبکہ عدالت نے حکم نہیں دیا بلکہ تجویز دی ہے۔ مجھے حیرت ہے محترم اویس جیسے سینئر وکیل بھی آئین و قانون کی علمبرداری کے موئید ہوتے ہوئے بھی ایسی بات کر رہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ گورنر حلف لینے سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ آئینی ذمہ داری ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اگر عدالت کے حکم پر عمل نہ ہو تو یہ توہین عدالت ہے ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ گورنر یہ تجویز نہ مانیں تو توہین عدالت نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریک انصاف بلکہ خود عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی بھی یہی چاہتے ہیں کہ حلف نہ ہو۔ اسی لئے تو کہا گیا کہ عدالتی فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔ اگر یہی کرنا ہے تو بھی آج کا دن ہے کہ فاضل چیف جسٹس کا حکم ہے کہ 28 اپریل تک حلف لیا جائے تاکہ صوبہ جو کسی قیادت کے بغیر چل رہا ہے اسے سربراہ مل جائے اور کابینہ تشکیل پا سکے۔


میں خود قانون کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور کورٹس رپورٹنگ میں بھی بڑا وقت گزارا اور بڑے بڑے مقدمات کی تفصیلی رپورٹنگ بھی کی لیکن جو آج ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ نظریہ ضرورت والوں نے بھی اس طرح نہیں کیا تھا۔ اب یہ جو موقف کہ توہین عدالت نہیں ہوئی اور آرٹیکل 45 صدر وزیر اعظم گورنر اور وزیر اعلیٰ کو تحفظ دیتا ہے۔تو  یہ درست بھی ہے کہ آئین سازوں نے یہ آرٹیکل خصوصی طور پر ایزاد کیا تھا کہ یہ پارلیمانی آئینی منتخب عہدیدار قومی امور کسی خوف کے بغیر ادا کر سکیں۔ لیکن اس استثنیٰ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مذکورہ عہدیدار آئین میں واضح کئے گئے امور ادا نہ کریں یا پھر عدالتی حکم کو نظر انداز کریں تو ان سے پوچھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ تو آئینی تحفظ کا بھی غلط استعمال ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے تیسری مرتبہ یہی کہا گیا کہ حلف لیا جائے اور تادم تحریر یہی عمل ہے کہ حلف نہیں لیا جا رہا لہٰذا مجبوراً حمزہ شریف کو ایک اور درخواست دینا ہو گی۔ جو سنجیدہ نوعیت کی ہو سکتی ہے۔ (تازہ اطلاع کے مطابق چیف جسٹس کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کر دی گئی ہے) میں یاد کرا دوں کہ پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا تاریخی عمل تھا جو دنیا میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے تو استثنیٰ مانگا نہ ہی واویلا کیا۔ حالانکہ یہ سزا تا برخاست عدالت تھی اور فیصلہ سنانے کے فوراً بعد عدالت برخاست بھی کر دی گئی تھی۔ اسی طرح محمد نوازشریف کو بھی وزیر اعظم کی حیثیت ہی سے اقامہ کیس پر نا اہل قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔ خبر یہ ہے کہ بدھ ہی کو انہی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کی دعوت پر ان سے ملاقات کی۔ بتایا یہ گیا کہ ان سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حلف کے حوالے سے مشورہ لیا گیا۔ یہ تو کسی نے معلوم نہیں کیا کہ اس حوالے سے کیا مشورہ  لیا اور دیا گیا تاہم خود ثاقب نثار جب یہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کا وقار لازم ہے اور انہوں نے سابق وزیر اعظم کو مشورہ دیا جس پر انہوں نے صاد کیا۔ تاہم سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے عمران خان نے معذرت کرلی۔ اگر محترم جسٹس ثاقب نثار ہی کے بیان پر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے احترام عدلیہ ہی کا مشورہ دیا لیکن تحریک انصاف ماننے کو تیار نہیں۔ تا حال صدر کی طرف سے بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔ اس لئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ پھر سے عدلیہ ہی کو دیکھنا ہوگا۔


اب حکمت عملی کی بات کر لیں۔ تو چودھری پرویز الٰہی اپنے سارے سیاسی تجربے کے باوجود بھی حالات پر اپنی منشا کے مطابق قابو نہیں پا سکے۔ موجودہ حکومت اور گورنر کی حمایت کے ساتھ صوبائی اسمبلی کا اجلاس آج (جمعرات) کے لئے بلا لیا گیا۔ ایجنڈے میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ تھا۔ رائے شماری کے لئے اجلاس طلب کیا گیا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کے لئے رائے شماری ہاتھ بلند کر کے نہیں خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن اور حلیفوں نے تیاری کر لی لیکن پھر کچھ نہ ہوا کہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اجلاس اگلے ماہ عید کے بعد تک یعنی 16 مئی تک ملتوی کر دیا۔ میری رپورٹنگ حس یہ کہتی ہے کہ ان کو نمبرز گیم کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس لئے رسک لینے سے گریز کیا کہ دوست محمد مزاری کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی حمزہ شہباز کے انتخاب پر مزید مہر ثبت کر دیتی۔ چنانچہ اجلاس ہی ملتوی کر دیا گیا۔ اب شاید یہ انتظار ہوگا کہ جن 36 اراکین کے خلاف ریفرنس بھیجا ہے۔ ان کا فیصلہ ہو جو ان کے یقین کے مطابق ان کے حق میں ہوگا کہ عمران خان اور فواد چودھری الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دے کر بھی کہتے ہیں۔ ریفرنس والوں کو ”ڈی سیٹ“ کریں دوسرے معنوں میں متحدہ اپوزیشن کے 36 ممبرز کم کر دیں تو پھر عدم اعتماد کر لیں گے اور حمزہ اگر حلف بھی لے لیں تو ان کو اعتماد کا ووٹ نہیں ملے گا لیکن یہ بھی خام خیالی ہے، یوں کہ الیکشن کمیشن صرف ریفرنس پر ہی یہ حکم جاری نہیں کر سکتا۔ اسے باقاعدہ سماعت کرنا اور ان اراکین کا موقف بھی سننا ہوتا ہے جن کے خلاف ریفرنس ہو۔ قومی اسمبلی کے اراکین کے خلاف سماعت شروع ہو چکی ہے۔ صوبائی کی باری بعد میں آئے گی اور وہ بھی اپنے موقف میں دلائل رکھتے ہوں گے اور ان کے وکیل بھی پیش ہوں گے بہتر عمل تو یہی تھا اور ہے کہ سب کچھ آئین قانون اور جمہوری روایات کے مطابق ہو کہ اس سارے عمل کو اچھا نہیں جانا گیا۔

مزید :

رائے -کالم -