مذاکرات شروع، استحکام کامیابی سے مشروط!
اسلام آباد میں جمعرات کو حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہو ہی گئے۔دونوں اطراف سے اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی کے بقول تحریک انصاف آئین کے دائرہ کار میں جمہوریت کے لئے مذاکرات کر رہی ہے۔ سابق وزیراعظم، سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے مطابق بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور یہ طے ہو گیا کہ مذاکرات ہی مفید عمل ہے اب یہ بات چیت آج (جمعہ) پھر ہو گی۔ اس عرصہ میں وفود اپنی اپنی قیادت سے مزید مشورہ بھی کر لیں گے۔ یہ ایک بہتر اقدام ہے کہ سخت تناؤ کے باوجود بالآخر مذاکرات شروع ہو گئے ایسے ہی تو کوئی مفید نتیجہ بھی ضرور نکلے گا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے اکتوبر، نومبر میں عام انتخابات کی تجویز کے جواب میں اپنی شرائط پیش کر دی گئی ہیں، اس سے یہ توقع پیدا ہو گئی کہ یہ مذاکرات یقینا کامیاب رہیں گے کہ اکتوبر نومبر میں عام انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف بھی ذہنی طور پر تیار نظر آئی کہ اس کے وفد کی طرف سے حکومتی وفد سے کہا گیا ہے کہ اگر انتخابات کے لئے رضامند ہونا ہے تو پھر اتحادی حکومت اور پیپلزپارٹی کو اس مقصد کے لئے عملی اقدام کرنا ہوگا کہ مئی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تحلیل کی جائیں تاکہ نوے روز والی آئینی مدت کے دوران نگران حکومتیں اور الیکشن کمیشن انتخابات کرا سکیں۔
اب تک باخبر ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ اکتوبر نومبر میں انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس کو چیمبر میں جوبریفنگ دی گئی اس کے دوران بتایا گیا تھا کہ ملک میں جاری آپریشنزکی وجہ سے فوری طور پر فوجی جوانوں کی مطلوبہ تعداد مہیا نہیں کی جا سکتی، تاہم یقین ہے کہ فوج اکتوبر سے پہلے اپنے اہداف حاصل کر لے گی اور انتخابی عمل کے لئے نفری دستیاب ہو گی۔ اسی لئے یہ کہا گیا کہ موجودہ صورت حال میں نفری دستیاب ہوگی اس بریفنگ کے بعد ہی تو مذاکرات شروع ہوئے۔ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے اگرچہ کوئی حکم تو جاری نہیں کیا تاہم سماعت ملتوی کرکے عملی تاثر دے دیا کہ سیاستدان اپنے معاملات خود ہی طے کر لیں۔ آج (جمعہ) جو بات چیت دوبارہ ہونا ہے اور یقین کر لینا چاہیے کہ تحریک انصاف بھی اس پر رضامند ہو جائے گی کہ وفاقی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان اسمبلیاں تحلیل کر دینے کے بعد بھی ساٹھ روز والی شرط تو ہے۔ حکومتی اتحاد اور اس کے ساتھ اس اتحادسے باہر سیاسی جماعتوں نے بھی یہ عندیہ دے دیا ہے اور یوں اب اکتوبر نومبر پر اتفاق رائے ممکن ہو سکتا ہے۔
جہاں تک اتحادی حکومت کا تعلق ہے تو اس میں شامل اکثریت مذاکرات اور ان کے نتیجے میں مثبت حل پر آمادہ ہے۔ اپنے مولانا فضل الرحمن نے اختلاف کیا اور اپنی جماعت کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے ذریعے جماعتی توثیق بھی کر دی، اس کے باوجود اگر اکتوبر، نومبر کے حوالے سے جزئیات طے ہو جاتی ہیں تو وہ بھی انتخابی عمل کے لئے تیار ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن بوجوہ عمران خان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر چکے ہیں تاہم جب معاملہ سمجھوتے کا آئے گا تو ان کو بھی پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر فیصلے میں شامل ہونا پڑے گا، ابھی تک یہ موقف پریشر گروپ کے طورپر ہی لیا جائے گا۔
اب عوامی سطح پر حالات ایسے بن چکے ہیں کہ عوام مجموعی طور پر محاذ آرائی سے زچ ہو گئے۔ جماعتی طور پر سخت تقسیم کے بعد بھی اکثریت امن چاہتی ہے کہ خود متحارب جماعتیں بار بار معاشی استحکام کو سیاسی استحکام سے جوڑتی ہیں اور عوام کا ذہن بھی اسی پر مانتا ہے کہ اگر محاذ آرائی ختم ہو جائے تو حکومت اور حکومت کی انتظامی مشینری کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ اس وقت تو سخت نوعیت کی ”انارکی“ جیسی کیفیت ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ اپنے فرائض منصبی پوری طرح ادا نہیں کر رہا، عوامی شکایات دور کرنا تو الگ ان پر غور ہی نہیں کیا جاتا، جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ محکموں کی کارکردگی بھی اب میڈیا کی مرہون منت رہ گئی کہ پریس ریلیزوں کے ذریعے کام ہوتے ہیں۔ عملی طور پر حالات جوں کے توں رہتے ہیں، اگر کسی کو اس پر یقین نہیں تو مختلف محکموں کے دعوؤں کو خود جا کر پرکھ لے۔ موقع پر کچھ نہیں ہوتا، روز تجاوزات کے خاتمے کی خبر ہوتی ہے لیکن اثرات کہیں نظر نہیں آتے۔ ان کالموں میں کئی بار عرض کیا کہ شجر کاری میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ صورت حال تو یہ بھی ہے کہ لاہور کینال کے کناروں پر درجنوں درخت سوکھ کر گرنے والے ہیں، حتیٰ کہ کئی ایک تو سڑک پر جھک چکے اور حادثے کا سبب بن سکتے ہیں، ان کو گرا کر متبادل شجر کاری نہیں کی گئی۔ گرین بیلٹ تباہ کر دی گئیں، پارکنگ بن چکیں اور بھینسیں چرائی جاتی ہیں، لوگوں کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ایک مثال بدھ اور جمعرات کی شب کی عرض کردوں۔ علامہ اقبال ٹاؤن گرڈ کی آبادیوں میں مصطفی ٹاؤن سمیت بدھ کی رات سے وولٹیج کی آمد و رفت شروع ہوئی۔ یہ نہ تو بالکل کم ہوتے اور نہ پورے ہوتے تھے۔ بار بار کم اور زیادہ ہوتے رہے۔ رات بھر کسی نے توجہ نہ دی۔ دن کو فون نہ سنا گیا۔ صارفین بلبلاتے رہے کہ گرمی میں پنکھے نہیں چلتے تھے اور آلات جل جل گئے تھے۔ متعدد صارفین کے بلب، فریج اور پنکھے تک جل گئے۔ جمعرات کی صبح خرابی بسیار کے باوجود کسی نے فون نہ سنا اور بالآخر جب سوشل میڈیا پر فریاد شروع ہوئی اور گروپ والوں نے بھی لعن طعن شروع کی تو دوپہر کے وقت کہیں بجلی مستحکم ہوئی اور وولٹیج پورے ہونے کے بعد آلات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ مستقل روگ ہے، جب لیسکو کارکنوں سے پوچھا جائے تو وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ سپلائی کی تاریں کسی منصوبہ بندی کے بعد کنکشنوں کے لئے استعمال کی گئی ہیں جو لٹک رہی ہیں، آندھی اور بارش میں ان تاروں کے ہلنے جلنے سے فیڈر ٹرپ کر جاتے اور ٹرانسفارمر اڑ جاتے ہیں، یہی محنت کش بتاتے ہیں کہ سپلائی کی تاریں پرانی اور سالخوردہ ہیں جو معمولی جھٹکے سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ ان کارکنوں کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن میرا تجربہ اور معلومات یہ ہیں کہ ہر سال لیسکو سمیت دوسری تقسیم کار کمپنیاں پرانی تاروں کی تبدیلی کے بجٹ بناتی ہیں اور ان کی منظوری بھی دی جاتی ہے۔ ہفتہ وار درجنوں فیڈر بند کرکے سات آٹھ گھنٹے صارفین کو برقی رو سے محروم رکھا جاتا ہے اس کے باوجود تاروں کی کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی اور مسائل جوں کے توں ہیں۔ نفری کم ہونے کی بھی شکائت ہے کہ سب ڈویژن بڑھا دی گئیں۔ افسروں کی تعداد میں اضافہ ہوا، کارکنوں کی تعداد نہ بڑھی اور پہلے سے موجود کارکن ہی تقسیم کر دیئے گئے۔
اب اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے اور استحکام کی صورت پیدا ہوئی تو توقع کی جا سکتی ہے کہ محکموں اور شعبوں کی کارکردگی پر بھی نظر رکھی جا سکے گی۔ جہاں تک منافع خور حضرات اور مصنوعی مہنگائی کا تعلق ہے تو اس کے حقیقی حال پر کسی کی توجہ نہیں۔ مسئلہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہے۔ مارکیٹ پر نگاہ کے ذمہ دار اداروں کو چاہیے کہ وہ ضرورت کے مطابق اشیاء کی فراہمی کا انتظام کریں تو مصنوعی مہنگائی ختم ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ حقیقی مہنگائی کی کمی کے لئے خود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عملی اقدام کرنا ہوں گے۔