دہشت گردوں کے مددگاروں کو بے نقاب کرنے کا عزم
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ہم اپنے بچوں اور لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے۔ کسی بھی مرحلے پر کسی بھی صورت میں دہشت گردوں کا ساتھ دینے والوں کے چہروں سے نقاب اُلٹ دیں گے، شوال وادی کے دورے کے دوران وہ جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے12ہزار فٹ بُلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے، انہوں نے ضربِ عضب آپریشن میں حصہ لینے والے افسروں اور جوانوں سے ملاقات کی، اس موقع پر اُنہیں زمینی کارروائی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے زمینی اور فضائی آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا،اور افسروں اور جوانوں کے حوصلے کو سراہا، جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، دہشت گردوں کے خلاف چاروں اطراف سے گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے، دہشت گردوں کا ان کے خفیہ ٹھکانوں سمیت صفایا کیا جائے گا اور اُن کے سہولت کاروں سے رابطہ ختم کیا جائے گا۔
جو لوگ مُلک میں سالہا سال سے دہشت گردی میں ملوث ہیں، اُن کی کارروائیوں سے مساجد محفوظ ہیں، نہ گرجا گھر، تعلیمی ادارے محفوظ ہیں،نہ ہسپتال، ہوائی اڈے محفوظ ہیں، نہ دفاعی تنصیبات، ریلوے سٹیشن اور ریل گاڑیاں محفوظ ہیں، نہ بسوں کے اڈے اور پبلک ٹرانسپورٹ، عوامی مقامات اور بازار محفوظ ہیں، نہ پبلک میں ہونے والی تقریبات، پولیس کے دفاتر اور تھانے محفوظ ہیں، نہ پولیس کی تربیت کے مراکز، غرض اُن کا جہاں بس چلتا ہے، ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد یا خود کش حملہ آور واردات کر ڈالتے ہیں، دہشت گرد دور دراز سے اپنے تربیتی مراکز سے چلتے ہیں اور لاہور میں واہگہ کی سرحد پر قومی پرچم اُتارنے کی تقریب کو نشانہ بنا دیتے ہیں، نشانہ بنانے والے یہ لوگ آخر انسان ہیں کوئی روبوٹ تو نہیں ہیں، اتنے طویل سفر کے دوران انہیں ہر قسم کی انسانی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔ اس لئے کسی سہولت کار کی مدد کے بغیر وہ کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے، یہ لوگ کہیں نہ کہیں سے اسلحہ خریدتے ہیں، خود کش جیکٹیں اور ان میں استعمال ہونے والا گولہ بارود وغیرہ کہیں نہ کہیں سے حاصل کرتے ہیں، دہشت گردی کی کسی واردات میں جو بھی سازو سامان استعمال ہوتا ہے وہ آخر اُنہیں کوئی تو فراہم کرتا ہے، پھر یہ سب کچھ اِدھر اُدھر پڑا ہوا تو نہیں مل جاتا، اس کے لئے بھاری رقومات خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ دہشت گردی کے منصوبوں اور اس کے لئے افراد کی تیاری کے لئے جو کروڑوں اربوں روپے کی رقوم درکار ہوتی ہیں وہ اُنہیں کہاں سے ملتی ہیں؟ اس لئے یہ بات منطق کے عین مطابق ہے کہ جب تک دہشت گردوں کو کیش اور اسلحے کی فراہمی کے یہ سوتے پوری طرح خشک نہیں کئے جاتے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جا سکتا، اس لئے آرمی چیف نے بالکل درست کہا ہے کہ دہشت گردوں کی مدد کرنے والے تمام چہرے بے نقاب کئے جائیں گے۔ جب یہ چہرے بے نقاب ہوں گے تو پتہ چلے گا یہ کس کس کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔
آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، اُن کے تربیتی مراکز اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں بھی بڑی حد تک نیست ونابود کر دی گئی ہیں، جن علاقوں میں انہوں نے کمین گاہیں بنا رکھی تھیں انہیں یا تو اِن کمین گاہوں میں ختم کر دیا گیا ہے یا پھر فرار وغیرہ کی کوشش میں مارے گئے ہیں، لیکن دہشت گردی کی اِکا دُکا بڑی وارداتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ابھی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا باقی ہے۔آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کا حملہ آپریشن ضربِ عضب کے دوران ہی ہوا تھا۔ لاہور کی سرحد پر قومی پرچم اتارنے کی تقریب پر بھی خود کش حملہ آور نے اِسی دوران حملے میں کامیابی حاصل کی، ابھی حال ہی میں پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کے شادی خان(اٹک) میں واقع ڈیرے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کرنل شجاع سمیت22دیگر افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دہشت گردی کا پوری طرح قلع قمع نہیں ہوا، اور نہ ہی انہوں نے پوری طرح ہار مانی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں کون؟ ظاہر ہے یہ سہولت کار مُلک کے اندر مختلف مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں اور اُنہیں ملکی اور غیر ملکی عناصر کی حمایت بھی حاصل ہے۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں، اس کے آل�ۂ کار بھی مقامی لوگ ہیں کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ان تمام سہولت کاروں کے چہروں سے نقاب اُلٹا جائے جو کسی نہ کسی انداز میں دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیوں کا تجزیہ کیا جائے، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر انہیں کسی نہ کسی انداز کی مقامی معاونت حاصل نہ ہو تو وہ وارداتیں کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ فوجی افسر اور جوان دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اپنی اور اپنے بچوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اب طویل تجربے کے بعد فوجی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لئے کیش اور اسلحے کی سپلائی کے تمام راستے بند کرنے ہوں گے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے، ورنہ دہشت گردی وقتی طور پر ختم ہو بھی گئی تو پھر شروع ہو سکتی ہے۔
ویسے تو سامنے صرف وہ دہشت گرد آتے ہیں، جو دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں یا وہ خود کش بمبار جو اپنی زندگی کے خاتمے کے ارادے سے نکلتے اور اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے اصل منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ کر تخریب کاری کے منصوبے بناتے اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ان کی نگرانی کرتے ہیں، گرفتار، دہشت گردوں سے ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں جس نیٹ ورک کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ پوری طرح نہیں توڑا جا سکا، اٹک میں ہونے والی واردات کے بعد اس رائے کو تقویت ملی ہے۔ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کو اُن کی زندگی میں بھی دھمکیاں مل رہی تھیں، کیونکہ وہ اپنی طبعی بہادری اور شجاعت کے تقاضوں کے تحت دہشت گردوں کے سرپرستوں کو للکار رہے تھے اور انہوں نے اس ضمن میں ’’را‘‘ کی مداخلت کے شواہد بھی تلاش کر لئے تھے، لیکن یہ عفریت جس انداز میں معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب سہولت کاروں پر مضبوط ہاتھ ڈالا جائے،اور آرمی چیف اس سلسلے میں پُرعزم نظر آتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے مددگاروں کے خلاف آپریشن کے اس اہم مرحلے کی کامیابی سے ہی دہشت گردی کا حقیقی معنوں میں خاتمہ ہو گا، اس لئے اس مرحلے کی کامیابی کے لئے پوری قوم فوجی قیادت کے شانہ بشانہ ہے اور آپریشن کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔