بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد مریدکے پر بمباری کی سازش کی: خورشید قصوری
کراچی (ویب ڈیسک) سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا ہے کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد مریدکے پر بمباری کی سازش کی تھی، امریکی سینیٹرز کو بتادیا تھا ایسا کچھ ہواتو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی، پاکستان کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ ملنے کے بعد بھارت حملہ سے باز رہا، آگرہ مذاکرات اس لئے ناکام ہوئے کہ پاکستان اور انڈیا کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا، اوفا میں وزیراعظم نواز شریف کا نریندر مودی کے پاس چل کر جانا بہت برلگا، مودی نے اوفا میں امن کا بہت بڑا موقع ضائع کیا، یہ بات غلط ہے کہ پرویز مشرف نے کشمیر کے حل کیلئے فارمولے پر فوج کا اعتماد میں نہیں لیا، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم فارمولے پر فوج کا اعتماد میں نہیں لیا، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم نے کوئی چناب فارمولا نہیں کیا، ہمارا فارمولا نواز شریف کے فارمولے سے بالکل الگ تھا، جنرل اسمبلی میں 2005ءمیں پرویز مشرف کی انڈیا مخالف تقریر غلطی سے کردی گئی تھی۔ جیو نیوز کے پروگرام میں میزبان نجم سیٹھی سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید قصوری نے کہا کہ کارگل کے بعد پرویز مشرف کے رویے میں تبدیلی آئی، پرویز مشرف تنگ نظر نہیں بلکہ کھلے دل و دماغ کے مالک تھے، پرویز مشرف سب کو بٹھا کر بحث کرالیتے تھے، کئی معاملات پر آئی ایس آئی کی اور کئی پر میری بات مانی جاتی تھی، خارجہ آفس میں زیادہ تر قدامت پرست لوگ ہیں، ہمیشہ پاکستان کے قومی مفاد پر کار بند رہا، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا میں تاریخ کو مسخ کیا گیا، ہم نے تو قائداعظم محمد علی جناح کی تقریری کے ساتھ کھیل کھیلے، ہم نے قائداعظم کا سلوگن تبدیل کردیا جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں، مسلمان اپنے مسالک بھلا کر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کٹھے ہوئے، اگر قائداعظم قیادت نہیں کررہے ہوتے تو پاکستان نہیں بنتا۔ انڈین کے مسلمان پس کررہ گئے ہیں، پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہتر ہونے سے انڈین مسلمانوں کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ خورشید قصوری نے کہا کہ انڈیا کے ہارڈلائنرز کے مقابلے میں پاکستانی ہارڈلائنرز تو سافٹ لائنرز لگتے ہیں، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انڈیا سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آگرہ مذاکرات اس لئے ناکام ہوئے کہ پاکستان اور انڈیا کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا، اوفا کا حشر بھی اسی لئے خراب ہوا، میرے زمانے میں پاکستان اور ڈنای کی جن بارہ نکات پر انڈر سٹینڈنگ تھی ان کے علاوہ پاک بھارت مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، اوفا میں وزیراعظم نواز شریف کا نریندر مودی کے پاس چل کر جانا بہت برا لگا، نریندر مودی نے اوفا میں امن کا بہت بڑا موقع ضائع کیا، فارن آفس اپنا کام کرا ہے لیکن اوپر والے نہیں سنتے۔ خورشید قصوری نے بتایا کہ جنرل اسمبلی میں 2005ءمیں پرویز مشرف کی انڈیا مخالف تقریر غلطی سے کردی گئی تھی، وہ تقریر ہمارے مستقل مندوب منیر اکرم نے لکھی جو انڈیا پر سخت موقف رکھتے ہیں، میں وہ تقریر مصروفیت کی وجہ سے نہیں دیکھ سکا تھا، تقریری کے بعد جب بھارتی وفدسے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف صاحب آپ کی حالیہ تقریر پچھلی تقریر سے بالکل مختلف ہے، اس وقت ہم یہ نہیں مان سکتے تھے کہ تقریر ہم نے آخری لمحات میں دیکھی۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم نے کوئی چناب فارمولا نہیں کیا۔ ہمارا فارمولا نواز شریف کے فارمولے سے بالکل الگ تھا، یہ جاننے کیلئے مقبوضہ کشمیر کے رہنماﺅں سے نجی ملاقاتیں کیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کون سا فارمولا تسلیم کرلیں گے، اگر مقبوضہ کشمیر کی قیادت ہمارا فارمولا مسترد کردیتی تو پاکستان کے عوام بھی اسے مسترد کردیتے، حریت لیڈر آج بھی ہمارے دور کے فارمولے کو درست سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فارمولے کی بنیاد یہ تھی کہ کشمیری تقسیم نہیں چاہتے، کشمیریوں نے مجھے کہا کہ ہماری مائیں، بہنیں اور بچے نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، انڈین فوجیوں کی سنگینوں سے ہماری جان چھڑائیں، ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں بھی تبدیلی لانی پڑے گی، انڈیا نے کہا اگر ہم مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالتے ہیں تو آپ آزاد کشمیر سے اپنی فوجیں نکالیں، اس پر ہمیں کوئی ڈر نہیں تھا کیونکہ ہم نے کشمیر فوجی جبرسے اپنے پاس نہیں رکھا، انڈیا نے کشمیر میں پاکستان سے آنے والے لوگوں کو روکنے کا مطالبہ کیا اس پر ہم نے انہیں کہا کہ یہ لوگ ہم سے پوچھ کر نہیں آتے لیکن ہم انہیں روکنے کیلئے اپنا مکمل اثر استعمال کریںگے، ہم نے ان لوگوں کو نارمل زندگی کی طرف لانے کیلئے سینٹرز کھولے۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد مریدکے پر بمباری کی سازش کی تھی، بھارت نے اس بارے میں امریکا کو بھی آگاہ کردیا تھا، پاکستان نے بھارت کو بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ دیا تو بھارت دبک گیا، امریکی سینٹرز کو بتادیا تھا ایسا کچھ ہوات و بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔ اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے سابق وزیر خرجہ نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد رچرڈ ہالبروک اور صدارتی امیدوار جان مکین نے پاکستان آکر مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ نئی دہلی میں بہت غصہ ہے ہمیں خطرہ ہے انڈیا پاکستان پر حملہ نہ کردے اور ہم دونوں ممالک کو جنگ سے بچانا چاہتے ہیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا اگر مریدکے پر بمباری کردی جائے تو پاکستانی عوام اور فوج کا کیا ردعمل ہوگا۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر مریدکے پر حملہ ہوا تو پاکستان فوج فوری ردعمل دے گی اور جہاں تک عوام کی بات ہے تو یاد رکھئے 1998ءمیں وزیراعظم نواز شریف تمام امریکی مخالفت کے باوجود عوام کے دباﺅ میں ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ خورشید قصوری نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ پرویز مشرف نے کشمیر کے حل کیلئے فارمولے پر فوج کو اعتماد میں نہیں لیا، میں نے خود ایسی میٹنگز میں شرکت کی ہے جہاں پرویز مشرف فوجیوں کو اس حوالے سے بریف کیا کرتے تھے، پرویز مشرف نے آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی اس معاملہ پر کبھی فوج کی نمائندگی نہیں کی، ان میٹنگوں میں فوج کی نمائندگی جنرل احسن سلیم حیات جبکہ آئی ایس آئی کی نمائندگی جنرل اشفاق پرویز کیانی کرتے تھے، اسی لئے اس معاملہ میں تین سال لگے کیونکہ جنرل احسن سلیم حیات اور جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کے مفاد کا تحفظ بھی چاہ رہے ہوں گے۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی بالکل غلط ہے کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد فوج کشمیر کے حل کے فارمولے سے پیچھے ہٹ گئی، ہمارے جانے کے دو سال بعد جنرل کیانی نے امریکی سفیر پیٹرسن کو کہا کہ وہی فارمولا ٹھیک ہے۔ خورشید قصوری نے کہا کہ اگر نریندر مودی نے تاریخ میں اپنا نام لکھوانا ہے اور اپنا ترقی کا ایجنڈا پورا کرنا ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہوں گے، نریندری مودی اس وقت تضادات کا شکارہیں، ان کی شاید خواہش ہو کہ وہ سیکنڈ الیکشن میں سٹیٹس مین بنیں، اگر نریندر مودی نے پالیسی تبدیل نہیں کی تھی بطور وزیراعظم ناکام ہوجائیں گے، ان کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے راستے پر چلنا ہوگا ورنہ جنوبی ایشیا میں بہت نقصان ہوگا۔ خورشید قصوری نے بتایا کہ کارگل کے بعد بھارتی وزیراعظم واجپائی نے فون پر وزیراعظم نواز شریف کو کہا کہ اپ جوکررہے ہیں اس سے انڈین مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔