پہلی بارگردشی قرضہ 684 ارب روپے کی حد عبور کر گیا،ویمن چیمبر
اسلام آباد( آن لائن ) اسلام آباد ویمن چیمبر آف کامرس نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بارتوانائی کے شعبہ کا گردشی قرضہ 684 ارب روپے کی حد عبور کر گیا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گردشی قرضہ کا ملبہ تیل کی قیمتوں پر ڈالا تھا جو اس وقت 109 ڈالر فی پیرل تھیں جبکہ 2013 میں موجودہ حکومت نے 480 ارب روپے کی ادائیگی کر کے اعلان کیا تھا کہ گردشی قرضہ کو ہمیشہ کیلئے دفنا دیا گیا ہے۔دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں کیونکہ اب تیل کی قیمت 45 ڈالر فی بیرل یعنی 2012 کے مقابلہ میں تقریباً ساٹھ فیصد کم ہیں مگر گردشی قرضہ کا جن دوبارہ بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔ اسلام آباد ویمن چیمبر کی کمیٹی برائے ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی چئیرپرسن تبسم انواریہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ تیل کی کم قیمتوں کے باوجود گردشی قرضہ کا ریکارڈ سطح پر ہونے کی وجہ بد انتظامی کے سوا کچھ نہیں جو اس شعبہ میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بڑا خطرہ ہے۔سرمایہ کاری رکنے سے توانائی کا شعبہ بدستور کمزور رہے گا اور جی ڈی پی کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ ترسیلات بھی مسلسل گر رہی ہیں جن میں جولائی کے مہینے میں بیس فیصد کمی آئی ہے جبکہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پندرہ لاکھ پاکستانی جو سالانہ چھ ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجواتے تھے میں سے لاکھوں کو کو فارغ کر دیا گیا ہے جس سے پاکستان آنے والی ترسیلات زر میں کم از کم دو ارب ڈالر سالانہ کی کمی کا امکان ہے جو ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے مگر پالیسی سازوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں دی۔
ادھریورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کی وجہ سے سے آنے والی ترسیلات میں 38 فیصد جبکہ امریکہ سے آنے والی ترسیلات میں 34 فیصد کمی آئی ہے جس کی وجوہات ابھی واضع نہیں۔انھوں نے کہا کہ جولائی 2013 میں برامدات 2.1 ارب ڈالر تھیں جو اب ڈیڑھ ارب ڈالر رہ گئی ہیں، اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری 4.4 ارب ڈالر تھی جو اب 959 ملین ڈالر رہ گئی ہیں ۔سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی تشویشناک اور حکومت کے بلند بانگ دعووں کی نفی ہے۔تبسم انوار نے کہا کہ جون 2015 میں پاکستان پر 19.8 کھرب روپے کا قرضہ تھا جو 2016 میں 22.4 کھرب ہو گیا یعنی ایک سال میں قرضہ میں 26 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جسے ادا کرنا ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔ ۔