روسی صدر سے ملاقات کے بعد طیب اردگان نے سب سے بڑا قدم اٹھالیا، شام میں فوجیں داخل کرنے کے بعد ایسا کام کہ امریکیوں کی پریشانی کی حد نہ رہی
دمشق (مانیٹرنگ ڈیسک) ترکی میں ناکام بغاوت کے تانے بانے امریکا کے ساتھ ملنے پر دونوں ممالک کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا۔ امریکا کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب ترک صدر رجب طیب اردوان اس کے سب سے بڑے مخالف روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے ملنے جا پہنچے، لیکن اس اہم ملاقات کے بعد ترکی نے جو قدم اٹھایا اس نے امریکا کو واقعی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
پانچ روز قبل ترکی نے اپنی افواج اور ٹینک شام میں داخل کر دئیے، جہاں نہ صرف داعش کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے بلکہ امریکا کے حامی اور اتحادی کرد شدت پسند بھی نشانے پر ہیں۔ جریدے نیوز ویک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز طلوع آفتاب کے وقت ترک فضائیہ کے جنگی طیارے بھی شمالی شام کے آسمان پر گرجتے ہوئے نمودار ہوئے اور کرد ملیشیا کے ٹھکانوں کو خوفناک بمباری کا نشانہ بنایا۔ ترک فوج کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 25 کرد شدت پسند ہلاک ہوئے۔ ترک افواج نے جرابلس کے سرحدی شہر کو داعش سے آزاد کروانے کے بعد کرد جنگجوﺅں کے ٹھکانوں کی جانب پیشقدمی کی۔
بلوچستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا بھی تو ہم۔۔۔ چین نے بھارت کو سب سے خطرناک ترین دھمکی دے دی
اس سے پہلے ترکی کے اندر بھی کرد باغیوں کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ترک حکام کا کہنا ہے کہ کرد شدت پسندوں کو شام کے مزید علاقوں پر قبضہ کرکے ترک سرحد کی جانب بڑھنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ترکی کا مسلح آپریشن کرد حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (SDF) پر پوری طرح متوجہ ہے، اور داعش کے خلاف جنگ میں SDF امریکی اتحادی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے اتحادی کردوں کے خلاف ترک افواج کی کاروائی اس کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی کا واضح ثبوت ہے، اور اس تبدیلی نے ترکی اور امریکہ کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔