اس کا حیران ہونا بجا تھا کہاں تو میں اسی کی قربت کے لئے بے چین رہا کرتا اور آج خود ہی اجتناب برت رہا تھا۔
’’جو ہو چکا وہی کافی ہے۔‘‘ میں نے بیزاری سے کہا۔
’’موہ۔۔۔‘‘ وہ شاید موہن کہنے جا رہی تھی لیکن میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’یہ آج تم کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہے ہو؟ کیا تم اپنی داسی سے اتنے ناراج ہو؟ میں جانتی ہوں کالی داس اور بسنتی نے بہت انیائے کیا ہے پرنتو میں تمہیں اس کا کارن بتا چلی ہوں کہ اس سمے کیوں نہ آپائی۔ بسنتی نے میرے سنگ و شواس گھات کیا ہے ۔یدی مجھے کھبر ہوتی کہ وہ کلٹا من میں کیا ٹھانے بیٹھی ہے تو میں جاپ چھوڑ کر آجاتی۔ پرنتو۔۔۔‘‘اتنا کہہ وہ سوچ میں کھو گئی۔
’’موہن! جب کوئی داسی اپنے دیوتاؤں کے چرنوں میں جاتی ہے تو اسے سنسار سے واسطہ توڑنا پڑتا ہے یدی وہ ایسا نہ کرے تو دیوتاؤں کے شراپ سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پھر بھی مجھے کھبر ہو جاتی تو میں ترنت تمری سہائتا کرنے پہنچ جاتی‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں اس سے خفا ہوں۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’یہ سب فضول باتیں ہیں میں ایسی خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ جہاں تک تعلق ہے بسنتی کے دھوکے کا۔۔۔تو تم خود ہی اسے میرا نگہبان مقرر کر گئی تھیں۔ تمہیں کیا پتا اس بدبخت کی وجہ سے میں کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا؟ اگر کالی داس میری مدد نہ کرتا تو آج شاید میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘
’’بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو۔‘‘ وہ تڑپ کر بولی۔
’’مجھے جانکاری مل گئی تھی تم کشٹ بھوگ رہے ہو۔ پرنتو کالی داس نے مجھے پراپت کرنے کے کارن یہ سارا سوانگ رچایا تھا۔ اس نے کھد ہی سب کچھ کیا پھر تمرا متر بننے کے کارن تمری سہائتا کی۔ میں سب جانتی ہوں پرنتو اس سمے میں جاپ چھوڑ کر آتی تو دیوتا میری شکتی چھین لیتے اور وہ دھشٹ کالی داس ایسے ہی کسی اوسرکی تاک میں تھا، اسی کارن میں نے جاپ نہ چھوڑا‘‘ میرے چہرے پر بیزاری کی کیفیت دیکھ کر وہ بولی۔
’’یدی تمہیں وشواس نہیں تو یہ بتاؤ جو منش تمری پھوٹو (تصویر) بنانے آیا تھا وہ ایسا کیے بنا کیوں چلا گیا؟ میں کھد تو نہ آسکی پرنتو اپنی شکتی کے جور سے میں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یدی کالی داس تمری سہائتا نہ کرتا تو میں اپنی شکتی سے سب کچھ ٹھیک کر لیتی‘‘ اس نے مجھے یقین دلانے کے لیے دلائل دینا شروع کر دیے۔
’’میں تمہاری کسی بات سے انکار نہیں کرتا لیکن اب میں ان سب باتوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم لوگوں کے آپس کے جھگڑوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ کالی داس تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ یہ بات تم نے ہی مجھے بتائی تھی۔ اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو وہ بدبخت بھی مجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھے گا۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ تم اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاؤ اور مجھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہنے دو‘‘
حسین آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔
’’یدی مجھے وشواس ہوتا وہ دھشٹ میرے جانے سے تمرا پیچھا چھوڑ دے گا تو میں تمرے پریم کی کھاطر یہ بھی کر لیتی پرنتو میں جانتی ہوں وہ پاپی تمہیں سکھی نہ رہنے دے گا۔ اسی کارن میرا تمرے سنگ رہنا جروری ہے‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔ میرے رویے سے وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔
’’جب تم چلی جاؤ گی تب میرا پیچھا کیوں کرے گا؟‘‘ مجھے حیرت ہوئی۔
’’اس پاپی نے یہ سب کچھ اس کارن کیا تھاکہ تمہرے من میں استھان بنا کر مجھے پراپت کر سکے پرنتو تم نے اس کی بات نہ مان کر اسے بہت دکھ دیا ہے۔ اس نے کالی کے مندرمیں سوگندکھائی ہے کہ جب تک وہ تمرا بلیدان کالی کے چرنوں میں نہ کرے گا شانتی سے نہ بیٹھے گا۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’یہ کونسی نئی بات ہے وہ تو کب سے اس بات کی آس لگائے بیٹھا ہے لیکن زندگی دینا اور لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔وہ شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ رہی بات دیوی دیوتاؤں کی تو میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں ان خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ میں نے بڑے ٹھوس لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزر گئی۔
’’میں تم سے دھرم پر کوئی بات نہ کروں گی؟ میرا وشواس کرو میں کیول تم سے پریم کرتی ہوں تم ہی میرا سب کچھ ہو۔ میرے مندر بھی تم اور دیوتا بھی تم‘‘ اس نے بڑے میٹھے لہجے میں کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ واقعی مجھ سے پیار کرتی تھی میری ذرا سی تکلیف پر وہ بے چین ہو جایا کرتی۔ میری خاطر اس نے کالی داس کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
’’اگر رادھا کی مدد سے اس منحوس ڈھانچے کو قبر میں اتار جا سکتا ہے تو مجھے سمجھداری سے کام لینا چاہئے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ میں نہیں جانتا یہ خیال خود ہی میرے دل میں آیا تھا یا رادھا کی پراسرار قوت کا کرشمہ تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب مجھے خیال آتا ہے کہ شاید دوسری بات صحیح ہو لیکن اس وقت یہ سوچ کرمیں نے اپنا رویہ کچھ نرم کرلیا۔
’’لیکن میں تمہاری وجہ سے کیسی مصیبت میں مبتلا ہوگیا تھا تمہیں کچھ پتا بھی ہے؟‘‘
’’اس سمے میں تم سے شما مانگنے آئی تھی پرنتو تم تو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ بڑی اداس اور ملول دکھائی دے رہی تھی۔ کافی دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
’’موہن! تم مجھ سے ناراج ہو اس بات کا دکھ نہیں۔ جو پریم کرتے ہیں وہ ایک دوجے پر ادھیکا رکھتے، کیول میری ایک بنتی سوئکار کر لو‘‘ اسکے لہجے میں التجا تھی۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’تھوڑا سا سمے نکال میرے سنگ ایک استھان پر جانا ہوگا‘‘ میری آنکھوں میں شک دیکھ کر وہ جلدی سے بولی’’مانتی ہوں تمہیں مجھ پرواش نہیں رہا۔ پرنتو تمہیں میری اور سے کوئی دکھ پہنچے یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’لیکن کس لئے اورکہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی۔ کل میں اسی سمے آؤں گی‘‘ وہ میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے جب بھی میں کوئی بات سوچتا وہ مجھے بتا دیتی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں بلکہ سپنا کے معاملے میں تو میں بذریعہ سوچ اس سے باتیں بھی کرتا رہا تھا لیکن آج وہ مجھے صرف ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میرے دل کا حال اس پر ظاہر نہ ہو۔
’’یدی تمہیں مجھ پر اتنا بھی وشواس نہیں رہا تو میں نہیں کہتی‘‘ وہ آبدیدہ ہوگئی۔
’’ایسی بات نہیں رادھا! میں تمہارے ساتھ ضرور جاؤں گا بس یہ بتا دو کہاں جانا ہے اور وہاں کتنا وقت لگے گا تاکہ میں اسی حساب سے چلوں‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’کل اسی سمے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کتنا سمے لگے گا یہ تو میں بھی نہیں جانتی پرنتو جس کارن میں تمہیں لے جا رہی ہوں وہ سب دیکھ کر تمرا من جرور پرسن ہوگا‘‘ اس نے مبہم سے بات کہی۔
’’ٹھیک ہے کل تم آجانا، اس کے احسانات بہرحال مجھے پرتھے مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔
’’جب تم تیار ہو جاؤ تو مجھے آواج دے دینا میں آجاؤں گی‘‘ وہ خوش ہوگئی۔ ’’اچھا اب میں جاتی ہوں کچھ پربند کرنا ہے۔‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ دوسرے دن بچوں کو سکول چھوڑ کر میں اسی سنسان راستے پر پہنچا تو میں نے رادھا کو آواز دی۔ دوسرے ہی لمحے وہ میری ساتھ والی سیٹ پر ظاہر ہوگئی۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی میٹھی مسکان تھی۔
’’کیسے ہو پریم؟‘‘ اس نے میری جانب دیکھا۔
’’تمہارے سامنے ہوں ‘‘ اس کی راہنمائی میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ جگہ دیکھی بھالی سی لگ رہی تھی غور کرنے پر میں ے پہچان لیا۔ یہ وہی گاؤں تھا جس کے قریب میری گاڑی خراب ہوئی تھی اور میں ایک شخص کی مدد سے کسی مکینک کی تلاش میں کالی داس کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ آج بھی اس اذیت کو محسوس کرکے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر ملنگ اپنے لعاب سے میرا علاج نہ کرتا تو نہ جانے میرا کیا حال ہوتا؟‘‘
’’اس استھان کو جانتے ہو؟‘‘ میں اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ رادھا کی آواز سن کر چونک گیا۔
’’اس جگہ کو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘ مجھے جھرجھری سی آگئی۔ آج بھی گاؤں میں کوئی متنفس دکھائی نہ دے رہا تھا۔ انسان تو کجا ایک جانور بھی نہ تھا۔ عجیب سی وحشت ہر سو برس رہی تھی۔
’’کیا یہاں کوئی نہیں رہتا؟ اس دن بھی میں نے کسی انسان کی صورت نہ دیکھی جب کالی داس مجھے گھیر کر لایا تھا۔ آج بھی صورت حال ویسی ہی ہے‘‘ میں نے حیرت سے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’ تھوڑا سمے اور انتجار کر لو‘‘ رادھا مسکرا کر بولی۔ رادھا کے کہنے پر میں نے اسی مکان کے سامنے گاڑی روک لی۔ وہ یکدم میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ (جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر74 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں