وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر54

Aug 29, 2017 | 02:38 PM

شاہد نذیر چودھری

فروری 1946ء میں اچھا پہلوان کی کشتی حاجی اسلم پٹھہ غلام محی الدین پہلوان پسر چودھری مہنی سے طے پائی۔ حاجی اسلم پہلوان حاجی افضل کا بڑا بھائی تھا۔ وہ ایک نامور دنگلیا تھا۔یہ کشتی داتا دربار کے عقب میں ہوئی۔ اس کشتی کے جو اشتہار شائع ہوئے ان پر اچھا پہلوان پسر گاماں پہلوان رستم زماں لکھا تھا۔
اسی دنگل میں حسینا دفتری رستم دہلی وارد ہوئی اور اس نے بھولو کو مقابلے کا چیلنج دیا جسے ٹھیکیداروں نے معاملات طے کرنے کے بعد ہتھ جوڑی کرا دی اور اپریل 1946ء میں دونوں کے درمیان کشتی طے ہو گئی۔
حاجی اسلم پہلوان اور اچھا پہلوان کی کشتی بڑی کانٹے دار ہوئی۔اسلم عرف اچھا پہلوان نے اس ماہر فنکار پہلوان کو بمشکل گرایا۔ یہاں سے اچھا پہلوان کی فتوحات کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔وہ اب بھولو کی ڈھال بن گیا تھا۔ اب اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی بھولو کو للکارتا اچھا پہلوان اسے اپنا چیلنج دے دیتا۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر53  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہی دنوں کولہاپور سے امام بخش کو ایک عجیب و غریب چٹھی موصول ہوئی۔اسے مہاراجہ کولہا پور اور اس کے دیرینہ ساتھیوں سیٹھ سلیمان اور بابا سوگندی نے تڑاکا نام کے پہلوان سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے بلایا تھا۔ تڑاکا پہلوان منجھا ہوا فنکار اور مغرور پہلوان تھا۔اس کی ایک عجیب سی عادت تھی۔وہ کسی پہلوان کو شکست دینے کے بعد اس کے منہ پر تھپڑ رسید کرتا تھا۔کولہاپوری عوام اس کی اس غیر انسانی عادت کو ناپسند کرتے تھے اور اسے سبق سکھانے کے درپے تھے۔کولہاپور میں امام بخش کی زمینیں بھی تھیں جو مہاراجہ نے اس کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ مگر جب سے وہ پٹیالہ اور امرتسر تھے، امام بخش نے پلٹ کر بھی کولہا پور کی زمینوں کی خبر نہ لی تھی۔
امام بخش، حمیدا پہلوان نے اپنے بیٹوں اور پٹھوں کو تیار کیا اور کولہاپور جانے کی تیاری شروع کر دی۔ انہی دنوں گاموں پہلوان کے بیٹے ریاض کی شادی ہو گئی۔ گاموں پہلوان گاماں پہلوان رستم زماں کا سسر تھا۔ امام بخش اور گاماں بارات لے کر لاہور سے دھرم سالہ روانہ ہوئے۔ ان کا سفر ٹرین کے ذریعے تھا۔ جب گاڑی کانگڑ نامی سٹیشن پر جا کر رکی تو پہلوان سستانے کیلئے گاڑی سے اتر آئے۔ امام بخش کو یہ علاقہ بڑا پسند آیا۔ ایک ٹیلہ نما پہاڑی پر بیٹھ کر فطرت کا نظارہ کرنے لگا۔ ٹیلے کے عقب میں نیچے کی طرف ایک چشمہ تھا۔ امام بخش کو پیاس محسوس ہوئی تو وہ چشمے کا پانی پینے کیلئے نیچے اترنے لگا کہ معاً نظر ایک چھوٹی قدوقامت کے لڑکے پر پڑی۔ وہ معنی خیز نظروں سے امام بحش کو دیکھنے لگا۔ امام بخش اس کے قریب گیا تو وہ لڑکا بولا۔
’’پہلوان جی میری دم سے کشتی لڑو گے‘‘؟
امام بخش لڑکے کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے کہا۔ ’’احمق لڑکے دم کا کشتی سے کیا تعلق‘‘۔
’’لڑکے! تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی، بزرگوں سے بات کیسے کرتے ہیں‘‘۔ امام بخش نے اس کی سرزنش کی۔
’’پہلوان جی غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کشتی کیلئے تیار ہو جاؤ میں تمہیں اپنی دم سے باندھ کر چت کر دوں گا‘‘۔
امام بخش پہلوان نے سوچا شاید اس لڑکے کی عقل خبط ہو گئی ہے۔ اس نے لڑکے کو نظر انداز کر دیا اور چشمے میں پانی پینے ہی لگا تھا کہ لڑکا اچانک ہنومان کی صورت اختیار کر گیا۔ اس نے اپنی لمبی دم کو لہرایا اور امام بخش کو اپنی دم کی گرفت میں لے لیا۔ دم بالکل ایک اژدھے کی طرح امام بخش کے گرد لپٹی تھی۔امام بخش بڑادرویش اور قلندرانہ اوصاف کا پہلوان تھا۔ وہ اس واہیات صورتحال پر سراسیمہ ہونے کی بجائے سیدھا ہو گیا۔ اس نے ہنومان کو قہر آلود نظروں سے گھورا اور کہا۔
’’ابھی تیری دم کا نمدا بناتا ہوں‘‘۔ امام بخش نے اس کو دم سے پکڑ کر زور سے اپنی طرف کھینچا۔ ہنومان نے ایک للکاری ماری اور اچھلتا ہوا امام بخش کے مقابل آن کھڑا ہوا۔ پھر یہی نہیں اس نے ایک زورکا کسوٹا امام بخش کی گردن پر دے مارا۔ امام بخش کی کھوپڑی گھوم گئی مگر ایک ثانیے بعد ہی امام بخش نے ’’یاعلی ‘‘ کا نعرہ مارا اور ہنومان کی کھوپڑی پر کسوٹا جڑدیا۔ ہنومان فضا میں اچھلا اور چشمے میں جا گرا۔ اس کا چشمے میں گرنا ہی تھا کہ پانی سے شوں شوں کی آواز آنے لگی۔ بالکل ایسے جیسے گرم لوہے کو پانی میں بھگویا جاتا ہے۔ ہنومان چشمے میں گر کر پگھل گیا۔ دم کی گرفت ٹوٹ گئی۔
امام بخش کئی منٹ تک چشمے میں ہنومان کا انجام دیکھتا رہا۔ ایک دم اسے اپنے عقب میں بہت سے قدموں کی آواز آئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو بھولو اور دوسرے لڑکے دوڑے آ رہے تھے۔ انہوں نے پاس آ کر پوچھا۔
’’ابا جی کیا ہوا ہے۔ آپ نے اتنے زور کا نعرہ کیوں مارا تھا۔‘‘
امام بخش نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔ بھولو اور دوسرے باراتیوں نے چشمے کی طرف اس جگہ دیکھا جہاں سے اب بھی بلبلے نمودار ہو رہے تھے اور اس کی سطح پر بادل بکھرے ہوئے تھے۔ لڑکے اور امام بخش خدا کی حمدوثنا کرتے ہوئے واپس ہو لئے اور بارات نے باقی سفر خیر و عافیت سے طے کیا۔
یکم اپریل 1946ء میں بھولو اور حسینا دفتری رستم دہلی کا مقابلہ ہوا۔ حسینا دفتری بڑی جوڑ کا پہلوان تھا۔ اس کے ریکارڈ پر بڑے بڑے شاہ زور تھے مگر جب وہ میدان میں بھولو کے سامنے آیا تو پانچ منٹ سے زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکا اور صاف چت ہو گیا تھا۔
مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے گاماں پہلوان، امام بخش کو بھولو سمیت شکار پارٹی پر بلایا تھا۔ بھولو ان دنوں ریاست بہاولپور میں تھا۔ مہاراجہ نے بھرپور دعوت دی تھی اور ہر حال میں شرکت کا کہا تھا۔امام بخش نے بھولو کو پیغام بھجوایا۔ وہ چند دنوں بعد ہی آ گیا۔ پہلوانوں نے رخت سفر باندھا اور پٹیالہ پہنچ گئے۔
بھولو نے اس بار اپنا ٹچل بٹیر بھی ساتھ لے لیا تھا۔ اسے بٹیر بازی کا بڑا شوق تھا۔ شکار کی بھی اسے لت پڑ چکی تھی۔ بہاولپور میں اپنے ماموں کی اجازت کے بعد وہ تقریباً روزانہ ہی شکار پر نکل جاتا تھا۔ مہاراجہ پٹیالہ کی دعوت ملی تو اسے شکار کا ایک اور محظوظ کن موقع مل گیا۔ مہاراجہ نے اپنے پہلوانوں کا بڑے پیمانے پر استقبال کیا۔ اس بار امام بخش اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ آیا تھا۔ مہاراجہ نے انہیں اس بار اپنی لیلابھون کے مہمان خانے میں قیام کا کہا تھا۔ مہاراجہ نے اپنے مشیر نور خاں صفی کو پہلوانوں کی دیکھ بھال کے امور پر مقرر کیا تھا۔ بھولو اور نور خاں ہم عمر تھے۔ نور خاں کو بھی پہلوانی سے شغف تھا۔ وہ بھولو کی کشتیوں کے بڑے بڑے معرکے دیکھ چکا تھا اور اس کا گرویدہ ہو گیا تھا۔ لہٰذا جب اسے معلوم ہوا کہ اس بار بھولو پہلوان اپنے باپ اور تایا کے ساتھ لیلابھون میں ہی ٹھہرے گا تو اس نے مہاراجہ سے کہہ کر خود اپنی ڈیوٹی لگوائی تھی تاکہ وہ اپنے شیر دل پہلوان کی خود خدمت کرسکے۔
نور خاں صفی کو بٹیربازی کا بھی شوق تھا۔اس نے اعلٰی نسل کے درجنوں بٹیر پال رکھے تھے۔ اس نے دیکھا کہ بھولو پہلوان کو بھی بٹیر پالنے کا شوق ہے اور وہ ہر وقت بٹیر سامنے رکھتا ہے تو اس نے بھولو کو دو اعلٰی نسل کے بٹیر تحفتاً دئیے اور کہا۔ ’’بھولو جی! کیوں ناں آپ کی ٹچل کی اپنے سچل سے کشتی ہو جائے‘‘۔
بھولو نے حامی بھر لی۔ ’’واہ اس طرح تو مزے آ جائیں گے‘‘۔
سہ پہر کو نور خاں صفی اور بھولو نے اپنے اپنے بٹیروں کو میدان میں اتارا۔ گاماں اور امام بخش نے بھی بٹیر بازی کا یہ مظاہرہ دیکھا۔ اس روز شاہی محل میں بڑی رونق جم گئی تھی۔ کئی ایک نے تو بٹیروں کا دنگل پہلی باردیکھا تھا۔ بھولو کے ٹچل نے میدان مار لیا تھا۔ اس نے اپنے بٹیر کی فتح پر تمام تماشائیوں کو دعوت دی۔
***
رات جب آخری پہر میں داخل ہوئی تو تمام پہلوان ریاضت کیلئے اکھاڑے میں چل دئیے۔ نور خاں صفی بھی ریاضت کرنیوالوں میں شامل تھا۔ گاماں جی نے اس کی پکڑ دیکھنے کیلئے اسے اچھا پہلوان کے آگے کیا۔ نور خاں کی پکڑ تو بڑی مضبوط تھی مگر اس میں پہلوانوں کی سی فنکاری نہ تھی۔ اچھا پہلوان نے اسے ’’ترول‘‘ مار کر نیچے گرا دیا اور وہ چاروں شانے چت ہو گیا تھا۔ بھولو نے اسے اٹھایا اور کہا۔ ’’نور خاں تو صرف بٹیر لڑایا کر ہاتھ پیر مضبوط ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ پہلوان کہلوانے لگ جائے۔ اگر تجھے پہلوانی کا زیادہ ہی شوق ہے تو روز محنت کیا کر‘‘۔
نور خاں صفی نے بھولو سے کہا۔ ’’پہلوان جی اللہ سوہنے کی قسم اب میں پہلوانی ضرور کروں گا مگر آپ بھی وعدہ کریں‘‘۔
’’وہ کیا؟‘‘ بھولو نے پوچھا
’’مجھے زور آپ خود کرایا کریں گے‘‘۔
’’یہ تو ممکن نہیں ہے۔ ہم تو صرف ہفتہ بھر ٹھہر کر چلے جائیں گے‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘۔ نور خاں صفی رنجیدہ ہو گیا۔ ’’خیر اس کا بھی حل کر لوں گا۔ آپ بسم اللہ تو کریں‘‘۔
پھر نور خاں صفی بھولو کا پٹھہ بن گیا۔ اس نے اس روز خوب محنت کی۔ جب تمام پہلوان محنت کر چکے تو نہا دھو کر واپس چلنے لگے تو فضا میں کسی کا مترنم سوز رچ بس گیا۔ سوز کیا تھا، کائنات کے مالک کی ثناء تھی۔ اتنی شیریں اور بھرپور نسوانی آواز بھولو نے کبھی نہ سنی تھی۔ بھولو نے حیرانی سے نور خاں کو دیکھا۔
’’پہلوان جی یہ میراں بائی ہے۔ جو روزانہ اسی وقت حمدوثناء کرتی ہے‘‘۔
’’میراں کون ہے؟‘‘ بھولو کا تجسس بڑھا۔
’’چکی بھرنے والی پٹیالہ کی سب سے حسین اور بہترین گائیکہ ہے‘‘۔ نور خاں صفی نے بتایا۔ ’’ایک ماہ پہلے ہی مہاراجہ نے اسے یہاں بلوایا ہے۔ ورنہ پہلے تو یہاں صرف ہندو گائیک بھجن ہی گایا کرتے تھے‘‘۔
بھولو آواز کے سحر میں ڈوب گیا تھا۔ اس نے اپنی کیفیت پر بمشکل قابو پایا۔ اسے ڈر لگا کر کہیں بابا جی اور اس کے والد اس کی دلی کیفیت نہ بھانپ لیں۔ وہ نور خاں صفی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا اور نور خاں صفی کو پاس بٹھا لیا۔
’’نور خاں صفی!گائیک خاتون کی اتنی پاکیزہ آواز سن کر میں تو بے خود ہو گیا ہوں‘‘۔
’’ہاں واقعی میراں ایسی قوت رکھتی ہے۔ اس نے بڑے بڑوں کو اپنے آگے موؤب کر دیا ہے۔ وہ پاکیزہ روح ہے۔ اس نے تو مہاراجہ حضور کو بھی بے خود کر دیا۔ حتٰی کہ ناراض تک کر دیا اور ان کی پروا نہیں کی‘‘۔
’’بھولو کا تجسس بڑھا۔ ’’یار نور خاں! مجھے اس خاتون کے بارے میں کچھ بتا ناں۔ یہ کون ہے؟‘‘
نور خاں صفی نے کھلنڈرے بھولو پہلوان کا گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ بھولو کے معصوم چہرے پر اسے کوئی جذبہ رینگتا نظر نہ آیا۔ پھر اس نے اسے میراں اور مہاراجہ کی کہانی سنائی۔
جب سے مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے بازار کرم پورہ کی ایک حویلی میں پھیرا ڈالا تھا۔ اس کے مکینوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔ حویلی والے کیا پورا محلہ مضطرب تھا۔ کسی نے کہا ’’ہائے اس کے بھاگ سنور جاتے مگر اس نے تو گھر آتی لکشمی واپس بھیج دی ہے‘‘۔
’’کوئی بولا۔ ’’اب خیر نہیں کہیں مہاراجہ حضور کا عتاب نازل نہ ہو جائے‘‘۔ مگر میراں کو مہاراجہ کے عتاب کی فکر تھی نہ گھر آئی دولت کے لوٹ جانے کی پروا۔ گھر والے بار بار پوچھ رہے تھے کہ آخر اسے ایسا گانا سنانے کی کیا ضرورت تھی جسے سن کر مہاراجہ ناراض ہو گئے۔
ویسے تو بازار کرم پورہ میں مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے والی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ یہ بہت اونچی حویلیوں کے سناٹے میں قائم تھا۔ مگر شہر کے دوسرے بازار حسن سے بہت مختلف تھا۔ وہاں نہ پھول اور گجرے بکتے تھے اور نہ کباب اور تکے ملتے اور نہ کوئی گرم حمام ہی نظر آتے۔ وہاں کبھی دنگا فساد نہ ہوا تھا اور نہ کبھی پولیس وغیرہ کو آتے جاتے دیکھا گیا تھا۔ سوائے مہاراجہ کی سواری کے جو وہاں سے خاص موقعوں پر بڑی سج دھج کے ساتھ گزرا کرتی تھی اور لوگ چپ چاپ کھڑے اسے دیکھا کرتے تھے۔
اس سواری کی بھی عجیب شان ہوا کرتی تھی۔ سب سے آگے دلہن کی طرح سجے ہوئے ہاتھی پر مہاراجہ تشریف فرما ہوتے۔ ان کے پیچھے دوسرے ہاتھی پر طرہ دار پگڑی باندھے، بارعب مونچھوں کے ساتھ وزیراعلٰی سردار لیاقت حیات خاں نظر آتے۔ پھر شتر سواروں کا دستہ جن کے پاس توڑے دار بندوقیں ہوتیں۔ اس کے بعد فوجی رسالہ اور توپ خانہ ہوتا پھر پیدل فوج اور پولیس کے دستے ہوتے۔ سب سے آخر میں امراء، وزراء اور دوسرے اہل کاروں کی کاریں گزرا کرتیں۔
صاف اور کشادہ سڑک دور تک چلی گئی تھی جس کی دونوں طرف پرانی وضع کی اونچی اونچی حویلیاں تھیں۔ ان کے مکینوں کی شکلیں دیکھنا تو درکنار آواز بھی کبھی باہر سنائی نہ دیتی تھی۔ درحقیقت یہ سْر سنگیت کی بستی تھی اور یہیں پر ’’پٹیالہ گائیکی‘‘ پروان چڑھتی تھی۔ ایک حویلی میں ’’رانجھے والیاں‘‘ رہتی تھیں۔ اس کے برابر ’’حکیم والیاں‘‘ اور سامنے والی حویلی میں ’’کروڑ والیاں‘‘ سکونت پذیر تھیں۔ ان کے ساتھ ہی ایک لال حویلی تھی جس کی ایک لڑکی راج محل میں رہتی تھی۔ اس لئے مہاراجہ کبھی کبھی تشریف لا کر رونق بخشتے تھے۔
حویلی کے سامنے ایک اونچا چبوترہ تھا جس کی تینوں جانب لوہے کا جنگلہ لگا ہوا تھا۔ سیڑھیوں سے چبوترے پر پہنچ کر ڈیوڑھی میں داخل ہونے کے بعد وسیع صحن آتا تھا جس کے وسط میں فوارہ لگا ہوا تھا۔ غلام گردشوں کے ستونوں کے ساتھ رنگ برنگے پھولوں کی بیلیں لپٹی ہوتی تھیں۔ جب فوارہ چلتا اور ہوا سے اس کی پھوار ہلتی ہوئی بیلوں پر پڑی تو بڑا کیف پرور منظر ہوتا۔ صحن عبور کرنے کے بعد ایک آراستہ پیراستہ دلان تھا جس کی اطراف میں کئی کمرے تھے۔ ایک گول کمرہ مہاراجہ کیلئے مخصوص تھا جس کی دیواروں پر پینٹ کی ہوئی بڑی بڑی تصویریں لگی تھیں اور چیتوں، شیروں اور ہرنوں کی کھالیں ان کے سروں سمیت آویزاں تھیں۔ فرش پر قالین بچھے تھے۔ چھت میں مختلف قسم کے جھاڑ فانوس لٹک رہے تھے۔ کھڑکیوں میں رنگین شیشے لگے تھے جب ان پر سورج کی کرنیں پڑتیں تو کمرے میں قوس قزح کے سے رنگ بکھر جاتے اور وہ بڑا ہی سحر زدہ اور خواب آگیں دکھائی دینے لگتا جیسے مہاراجے کے محل لیلابھون کا کمرہ وہاں لا کر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی کھڑکیوں کے ساتھ ایک بڑا مستطیل تخت بچھا تھا اور اس پر سرخ مخمل سے مزین، سونے سے مرصع ایک کرسی رکھی تھی۔ مہاراجہ اس کرسی پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ دونوں طرف مصاحبین کی کرسیاں تھیں۔ (جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں