تحریک انصاف آگئی، انصاف کب آئے گا؟ 

تحریک انصاف آگئی، انصاف کب آئے گا؟ 
تحریک انصاف آگئی، انصاف کب آئے گا؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللّٰہ رب العزت کے فضل و کرم سے کامیاب الیکشن بھی ہو گئے، حکومت سازی کیلئے تمام تر اقدامات مکمل ہونے کے بعد وزراء نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا کر اپنے کام کا آغاز بھی کردیاہے. وزیراعظم سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اپنے کام کا آغاز کر چکے ہیں. عیدالاضحٰی کی تعطیلات کے بعد وفاقی و صوبائی عدالتوں میں بھی کام کا آغاز ہو چکا ہے. چیف جسٹس کے حکم کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت تو ہو رہی ہے لیکن ابتک نہ کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی جا سکی ہے. 
عیدالاضحٰی کے فوراً بعد استغاثہ کیس کے سلسلے میں انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں وزیراعظم عمران خان کا تذکرہ بھی ہوا، سماعت کے دوران عوامی تحریک کے وکلاء نے طارق چانڈیو سے سوال کیا کہ جون 2014ء میں لندن میں عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملاقات ہوئی جس کی وجہ سے نواز شریف اپنے خلاف عوامی تحریک چلنے سے خوفزدہ تھے. اس وقت کے اے سی ماڈل ٹاؤن طارق چانڈیو نے کہا کہ یہ ملاقات میرے علم میں نہیں،کمرہ عدالت میں اس وقت بلند آواز سے استغفراللہ پڑھا گیا جب طارق چانڈیو نے کہا پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں کسی پر کوئی تشدد نہیں کیا ۔عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس پر تشدد کیا،اس پر مستغیث جواد حامد اور دیگر وکلاء نے کہا کہ ایک گزیٹیڈ افسر کو پولیس تشدد اور قتل عام کے کھلے ثبوتوں کے باوجود عدالت کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ ایس پی ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم نے سربراہ عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے باہر حفاظتی انتظامات کرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں عمل درآمد کی رپورٹ جمع کروائی،حیرت ہے اے سی ماڈل ٹاؤن اس سے لاعلم تھے حالانکہ ماڈل ٹاؤن آنے والے پولیس افسران اور ٹی ایم اے کے عملہ کو عدالتی حکم نامہ کی کاپی دکھائی گئی. ابتک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین 126 سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں لیکن ہمارا نظام عدل انصاف دلانے سے قاصر ہے. 
پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کو سیاسی کزنز کے نام سے جانا جاتا ہے کیا سیاسی کزنز مظلوموں کو انصاف دلا سکیں گے؟عمران خان صاحب نے اپنی جماعت تحریک انصاف بنائی ہی اسی لیے تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد مظلوموں اور بے گناہوں کو انصاف فراہم کرے گی، 22 سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار تو ملا لیکن ترجیح انصاف نہیں سادگی ہے، ابتک لفظ انصاف صرف تقاریر میں سننے کو ملا. سیاستدانوں کے تو وعدے کبھی پورے نہ ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس صاحب بھی اپریل 2018 میں کیا گیا (ایک ہفتے میں انصاف کا) وعدہ وفا نہ کر سکے. دراصل ہمارا نظام مظلوموں سے زیادہ طاقتور کے لیے ہے. دن دھاڑے سینکڑوں ٹی وی چینلز کی موجودگی میں شہید ہونے والوں کے لواحقین، انصاف تو دور کی بات پیشیاں بھگتتے آ رہے ہیں. جب تک ہم اپنا نظام نہیں بدلیں گے تب تک نہ تو تبدیلی آ سکتی ہے اور نہ ہی مظلوموں کو انصاف مل سکتا ہے. ہمارے اس ملک میں صرف انصاف کی ہی کمی ہے. غریب کے لیے قانون اور امیر کے لیے اور. جب تک ہمارے ملک کا نظام عدل ٹھیک نہیں کیا جائے گا کسی انقلابی تبدیلی کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے. میں امید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی قیادت اس مسئلے کا فی الفور کوئی حل نکالے گی. 

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -