فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر505

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر505
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر505

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بات آسکر ایوارڈ سے شروع ہوئی تھی اور بھارتی فلموں اور اس کی ثقافتی یلغار تک پہنچ گئی۔امریکی آسکر ایوارڈز کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی کس قدر اہمیت ہے۔آسکر حاصل کرنے والی فلمیں یکا یک کروڑوں کمانے لگتی ہے۔اسی طرح آسکر حاصل کرنے والے فنکاروں اور ہنر مندوں کی عزت و تکریم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آمدنی میں بھی لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ آسکر کی۔۔۔لگ بھگ پون صدی کی تاریخ میں کئی۔۔۔فنکار اور ہنر مند اس اعزاز سے زندگی بھر محروم ہی رہے حالانکہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں نہ صرف انتہائی کامیاب تھے بلکہ نفاد بھی ان کی عظمت کو تسلیم کرتے تھکے اور فلم بین بھی ان کے شیدائی تھے۔آسکر ایوارڈ بے شمار ہدایت کاروں اور فنکاروں نے حاصل کیا۔بعض خوش نصیبوں کو ایک سے زائد بار بھی ملا مگر کتنی عجیب بات ہے کہ الفریڈ ہچکاک جیسے صاحب ہنر تخلیق کار اور ہدایت کار کو آسکر کے لائق نہ سمجھا گیا۔ہچکاک کو تجسس کا بادشاہ کہا جاتا تھا۔اس کی فلموں میں بے انتہا گہرائی اور نفسیاتی مسائل کا تجزیہ شامل ہوتاتھا۔اس کے باوجود وہ بے انتہا مقبول اور کامیاب بھی ہوتی تھیں۔ساری دنیا میں فلم بین ہچکاک کی فلموں پر ٹوٹ پڑتے تھے ۔وعجیب و غریب موضوعات انوکھے انداز میں فلماتا تھا اور نرالے کردار تلاش کر کے پیش کرتا تھا۔اس کی فلموں کی کہانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا تھا۔وہ اپنی فلموں کے ذریعے کئی نفسیاتی الجھنیں اور گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا تھا۔اس کی ہر فلم دیکھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتی تھی۔اس کی فلموں کا کیمرا ورک ،لائٹنگ اور زاویے سب سے مختلف اور انوکھے ہوتے تھے۔دنیا بھر کے لوگ ہچکاک کی فلمیں دیکھنے کے منتظر رہتے تھے۔وہ ہر بار ایک نیا موضوع اور نئے کردار ان کے سامنے لاتا تھا اور شاید ہی اس کی کوئی فلم نا کام رہی ہو۔اس کی فلموں میں کام کرنے والے کئی فنکاروں،مصنفوں،اور ہنر مندوں کو آسکر ایوارڈ کے لائق نہ سمجھا گیا۔ہچکاک کو بھی اس کی پروا نہ تھی۔وہ ساری زندگی نت نئے موضوعات پر خوب صورت اور سوچنے پر مجبور کرنے والی فلمیں بنانے میں مصروف رہا۔اس نے ’’آسکر‘‘نہ ملنے پر کبھی شکوہ نہیں کیا۔کبھی اس کا تذکرہ تک زبان پر نہیں لایا ۔مگر کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔ہچکاک کے انتقال اس کی فلمیں کامیابی سے نمائش پذیر ہوتی رہیں۔مگر جب نقادوں اور اہل علم و فکر لوگوں نے ہچکاک کی فلموں کا تجزیہ شروع کیا اور انہیں کلاسیکی قرار دے کر طالب علموں کے کورس میں شامل کیا تو فلم والوں کو احساس ہوا کہ انہوں نے اس قدر عظیم تخلیق کار اور ہدایت کار کو ہمیشہ نظر انداز کیوں کیا حالانکہ وہ بے انتہا قدرومنزلت کا حقدار تھا۔وہ اپنی ذات میں ایک اسکول اور ایک ادارہ تھا جس کا ہم پلا آج تک پیدا نہیں ہوا۔چنانچہ اب فلمی صنعت کے مختلف اداروں نے اس کی بے بہا خدمات کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے۔یہاں تک کہ اسے بعد از مرگ امتیازی خدمات کے سلسلے میں آسکر ایوارڈ بھی پیش کیا گیا ہے۔یہ الفریڈ ہچکاک کی نہیں دراصل خود آسکر ایوارڈ کی عزت افزائی ہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر504پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مارلن مونرروکا نام کون نہیں جانتا۔ایک زمانہ اس کے حسن و جمال کا معترف ہے۔اس کی اداکاری کا ایک مخصوص انداز تھا۔بدقسمتی سے وہ اس قدر حسین ٗپرکشش اور جاذب نظر تھی کہ اس کی اداکارانہ صلاحیتوں پر کسی کی نظر ہی نہیں جاتی تھی۔وہ اس کے چہرے کی شگفتگی اور جس کی شادابی کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتی تھا۔
مارلن مونرو کو فلمی دنیا میں ایک ’’دیوی‘‘کا مرتبہ اس کی زندگی ہی میں حاصل ہو چکا تھا۔اس کی پراسرار جواں مرگی کے بعد اس کی توقیر میں کچھ اور اضافہ ہوگیا ہے۔اس کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھیں جا چکی ہیں۔اس کی فلموں کو ایک نادر ذخیرے کی حیثیت سے محفوظ کر لیا گیا ہے۔اس کی فلموں کو ایک نادر ذخیرے کی حیثیت سے محفوظ کرک لیا گیا ہے۔اس کی زندگی اور اداکاری کے مختلف پہلوؤں سے لیکر اس کی ذاتی زندگی،ناکام محبتوں اور پر اسرار موت تک ہر پہلو کو کھنگالا جارہاہے۔جب تک وہ زندہ رہی ایک سپر اسٹار کہلائی۔اس کی فلمیں دیکھنے کیلئے لوگ دوسری تمام مصروفیات کو ترک یا ملتوی کردیا کرتے تھے۔وہ جیتے جی ایک لیجنڈ ٗ ایک دیوی کا مرتبہ حاصل کر چکی تھی۔سابق امریکی صدر جان کینیڈی سے اس کے مراسم اب ایک کھلا راز ہیں۔صدر کینیڈی کی صدارتی تقریب کے افتتاح کے موقع پر مارلن مونرو نے سرخ رنگ کا خصوصی لباس تیار کرایا تھا اور صدر کے لیے خیر مقدمی گیت گایا تھا جس کی گونج آج تک وائٹ ہاؤس کے درد دیوار میں موجود ہے۔اس کا وہ سرخ گاؤن پچھلے دنوں مہنگے داموں نیلام ہوا ہے۔اس سے وابستہ ہر شے لاکھوں ڈالر میں فروخت ہو جاتی ہے۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)