ہم کہ ایک جوہری قوت ہیں!
بعض مفروضات (Perceptions) نہائت گمراہ کن بلکہ لغو ہوتے ہیں۔ انہی بعید از فہم و فراست اور بیہودہ مفروضات میں ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ہم چونکہ ایک جوہری قوت ہیں اس لئے ہمیں کسی طاقتور سے طاقتور غنیم کی بھی پرواہ نہیں۔بس ایک بم چلائیں گے اور دشمن کو خاک و خون میں نہلا کر رکھ دیں گے!…… مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نے جو کچھ کیا ہے اس کے جواب میں ہم دو باتیں بڑے تواتر سے کہہ رہے ہیں۔ ایک واشگاف الفاظ میں اور دوسری ملفوف انداز میں۔ واشگاف والی بات یہ ہے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی زندگی دی ہے اور اسے انٹرنیشنلائز کر دیا ہے اور ملفوف یہ ہے کہ ہم ایک نیو کلیئر پاور ہیں اس لئے کیا ہوا اگر انڈیا کے مقابلے میں ہمارے پاس روائتی ہتھیاروں کی کمی ہے اور ساز و سامانِ جنگ کی قلت ہے۔ اگر یہ سامانِ حرب و ضرب ختم ہو گیا اور جنگ ختم نہ ہوئی یا اس کا نتیجہ ہماری امیدوں کے خلاف نکلتا معلوم ہوا تو ہم ’ایٹم بم‘ چلا دیں گے…… یہ جوہری وار ہیڈز ہم نے شبرات کے لئے تو نہیں رکھے ہوئے۔ وغیرہ وغیرہ……گویا ہمارا ایٹم بم ایک ایسا محبوبِ دلنواز ہے کہ سب کو مار کر زندہ رہتا ہے اور گفتہ ء غالب کی یاد تازہ کرتا ہے:
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
.
ایک اور بے معنی مفروضہ ان ایٹم بموں کی تعداد کے سلسلے میں بھی ہے۔ کسی عالمی جوہری تھنک ٹینک نے کہیں یہ لکھ دیا ہے کہ پاکستان کا جوہری ترکش انڈین ترکش سے زیادہ وزنی اور مہلک ہے۔ مزید صراحت فرمائی گئی ہے کہ انڈیا کے پاس 90سے لے کر 100تک کی تعداد میں ایٹم بم ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 110سے لے کر 120 تک ہیں اور اس لئے ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان زیادہ بڑی جوہری قوت ہے!…… اور ایک تیسرا مفروضہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بم سازی میں جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے اس کے پیشِ نظر کوئی ہی دن جاتا ہے جب پاکستان کی جوہری ٹکسال میں امریکہ، روس اور چین کے بعد سب سے زیادہ کثیر تعداد میں جوہری سکے موجود ہوں گے اور برطانیہ، فرانس، اسرائیل وغیرہ منہ دیکھتے رہ جائیں گے اور شمالی کوریا تو ہنوز طفلِ مکتب ہے!…… خدا جانے ان مفروضات کی پشت پر مغرب کی جو پراپیگنڈا مشین ہے اس کے حصوں پرزوں کا کچھ علم ہماری پاکستانی عوام کو ہے بھی یا نہیں۔
دنیا کے 9ممالک ایسے ہیں جن کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے(امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، چین، اسرائیل، پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا)…… ان میں شمالی کوریا ہنوز نومولود ہے۔ باقی آٹھ ممالک کی آبادیوں کا اگر اوسط پیمانہ ء ذہانت (IQ) نکالا جائے تو پاکستان اور انڈیا کی آبادیوں کا IQ سب سے کم ہو گا۔ یہی وجہ سے کہ ہم اور انڈیا دونوں جوہری ٹیکنالوجی، اس کے ”فوائد“ اور اس کے نقصانات کے باب میں ”اَن پڑھ“ ہیں۔ ہماری 95% آبادی کو یہ معلوم نہیں کہ جوہری قوت کا حامل ہونے کا مفہوم کیا ہے اور کوئی ملک جب یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لیتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں کس قدر گراں بار ہو جاتی ہیں اور باقی عالمی جوہری قوتیں اس کو کس پیمانے سے ناپتی (یاماپتی) ہیں۔ ہماری 80% آبادی کو تو یہ پتہ بھی نہیں کہ ایٹم بم کو جوہری بم کہا جا سکتا ہے یا نہیں، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور پلوٹینیم بم میں کیا فرق ہے، ان کی ہلاکت آفرینی کا عالم کتنا ہولناک ہے، ہمارے پاس کتنے ایٹم بم اور کتنے ہائیڈروجن بم ہیں اور اگر ان کو استعمال کیا گیا تو کیسی کیسی شبراتیں تخلیق ہوں گی اور کیسی کیسی دیوالیاں جنم لیں گی۔
مثل مشہور ہے تھوتھا چنا باجے گھنا…… انڈیا اور پاکستان ہنوز ایسے ہی دو تھوتھے چنے ہیں اس لئے گھنے باجے جا رہے ہیں لیکن جن کے پاس ہزاروں جوہری وار ہیڈز ہیں وہ چپ بیٹھے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ استعمال کرنے کے لئے نہیں ”ڈرانے“کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ڈراوا (Deterrence) ہر کس و ناکس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ جس پاکستانی پبلک کی اکثریت کو لیفٹیننٹ کرنل اور لیفٹیننٹ جنرل کے رینک کا فرق معلوم نہ ہو اس کو کیا پتہ کہ ہائیڈروجن بم کیا ہوتا ہے اور ”بیٹل فیلڈ نیو کلیئر وارہیڈ“ کس بلا کا نام ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو 1945ء سے لے کر اب تک کے 74برسوں میں دنیا نیست و نابود ہونے کی سرحدوں سے کتنی بار بال بال بچی ہے۔ کیا کوئی خدا کا بندہ پاکستانی قاری،ایسی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتا ہے جن میں جوہری وار ہیڈز کی ٹرانسپورٹیشن کے دوران دنیا کتنی بار بربادی کے دہانے پر پہنچ کر واپس آئی کی تفصیلات درج ہیں؟ دنیا کی پانچ بڑی جوہری قوتیں خدا کے وجود کو تسلیم کرنے میں اگر متذبذب ہوں تو اس کا کیا علاج؟ لیکن خدائے لَم یزل نے نجانے کتنی بار اس قیامت کو ٹالا ہے کہ جس کا وعدہ قرآن کریم میں بار بار کیا گیا ہے۔
میں قرآنی اور اسلامی علوم کا اتنا زیادہ عالم فاضل بلکہ شناسا بھی نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ قرآن کریم کے وہ سورتیں جو آنحضورؐ کے قیامِِ مکہ کے دوران نازل ہوئیں اور مکی سورتیں کہلاتی ہیں، ان کو سرسری طور پر ہی دیکھ اور پڑھ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں جب بھی قیامت آئی وہ جوہری وار ہیڈز کے استعمال کے نتیجے میں آئے گی۔ ان مکی سورتوں کا آسان اردو ترجمہ ہی پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قیامت کی جو گھڑی مقرر کی گئی ہے وہ اگر امریکہ کی طرف سے جوہری وار ہیڈز کی ٹرانسپورٹیشن کے دوران کی گئی سنگین غلطیوں کے باوجود نہیں آئی تو یہ ایک الوہی فیصلہ ہے، امریکی بلنڈرز سے بچ جانے کا حسنِ اتفاق نہیں!
پاکستان اور انڈیا دونوں کو آج چرنوبل (Chernobyl) کا سانحہ یاد کرنے کی اشد ضرورت ہے…… یہ سانحہ 26اپریل 1986ء کو آج سے تقریباً 33،34 برس پہلے چرنوبل پاور پلانٹ میں پیش آیا تھا…… یہ چرنوبل کہاں واقع ہے اور یہ سانحہ کیا تھا اسی کا نام تو کئی دوستوں نے سن رکھا ہو گا اور اس پر مغربی دنیا نے جو فلمیں بنائی ہیں اور جو ڈرامہ سیریل ترتیب و تخلیق دیئے / کئے ہیں ان کو بھی دیکھا ہو گا لیکن افسوس کہ اس شعور کو پاکستانی میڈیا پر عام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کے جوہری ممالک کے پاس جو ہزاروں جوہری وار ہیڈز ہیں ان کی موجودگی کی ڈینگ کسی افرنگی نے نہیں ماری۔ سرد جنگ کے برسوں (1950ء تا 1990ء) میں بھی ناٹو یا وارسا پیکٹ فورسز نے جوہری وار ہیڈز کو بطور ایک ”ڈراوا“ (Deterrence) ضرور استعمال کیا لیکن ان کے ”فزیکل“ استعمال کی نوبت کبھی نہ آئی…… یہ چرنوبل کا سانحہ ہی تھا کہ دنیا کی دونوں سپرپاورز نے جرمنی سے اپنی اپنی افواج واپس بلا کر ”سردجنگ“ کا اختتام کیا!
یہ چرنوبل،یوکرائن کے انتہائی شمال میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں یوکرائن نے ایک ایٹمی بجلی گھر بنایا تھا۔ اس کے چار ری ایکٹر تھے جن کو ٹیسٹ کیا جا رہا تھا۔ تین ری ایکٹر تو ٹیسٹ کر لئے گئے۔ چوتھے کی باری آئی تو یہ ٹرائل کامیاب نہ ہوا اور اس کے نتیجے میں دنیا کا بدترین جوہری حادثہ رونما ہوا……یہ پاور پلانٹ روس کے (اس وقت کے صوبے) یوکرائن کے شمال میں واقع ہے۔ روس اور امریکہ بلکہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک، ایٹمی بجلی گھروں کا عام استعمال کر رہے ہیں (پاکستان میں بھی چشمہ کے مقام پر ہمارے ایسے ہی تین نیوکلیئر ری ایکٹر کام کر رہے ہیں)۔ کہا جاتا ہے کہ چرنوبل کے اس ری ایکٹر کی ساخت میں کوئی بنیادی خرابی رہ گئی تھی اور ماہرین اس کو دور کرنے کی کوششیں کر رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا۔ ایک سو سے زیادہ اشخاص فی الفور موت کے گھاٹ اتر گئے اور مزید 4000 آنے والے چند برسوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔ اس حادثے کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں۔ اس کے لئے آٹھ دس کالموں کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی تابکاری کی شدتِ کثرت کا عالم یہ تھا کہ اس سے ڈیڑھ لاکھ لوگ کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہوئے۔…… دوسری طرف ہم ہیں کہ ان دنوں بالخصوص ایٹم بم ”چلانے“ کی دھمکیاں دیئے چلے جا رہے ہیں۔
مجھے یاد نہیں کہ کسی پاکستانی ٹی وی چینل نے چرنوبل حادثے کی فلم چلائی یا اس پر بننے والے ڈرامہ سیریل کی چند جھلکیاں ہی ہم پاکستانیوں کو دکھائی ہوں۔ دوسری طرف انڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ اس کا بالی وڈ ہر سال درجنوں فیچر فلموں لوگوں کو دکھاتا اور اپنی جنتا کو بہکاتا پھسلاتا رہتا ہے۔ لیکن یہ مغربی دنیا ہی ہے جس نے کروڑوں ڈالر خرچ کرکے اس حادثے کی فلم بنائی اور اربوں ڈالر کمائے۔کہنے کا مدعا یہ ہے کہ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جوہری وار ہیڈز کو بطور Deterrent ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے لیکن وہ جو سننے میں آیا ہے کہ پاکستان آرمی کی کئی یونٹوں میں ”بیٹل فیلڈ نیو کلیئر وارہیڈز“ ایشو کئے گئے ہیں اور ان کی ٹریننگ بھی کی گئی ہے تو اگر یہ حقیقت ہے تو ان تفصیلات کو میڈیا پر بھی آنا چاہیے تاکہ عوام جان سکیں کہ ان شبراتی ”پٹاخوں“ کی اصل حقیقت کیا ہے اور اگر ہم نے انڈیا کے ساتھ روائتی جنگ کی (یا انڈیا نے ہمارے ساتھ کی) تو اس کا انجام کیا ہو گا؟