رانا ثنا ء للہ کے کیس کا جج دوران سماعت واٹس ایپ نوٹیفکیشن پر تبدیل
لاہور(نامہ نگار)سپیشل جج اینٹی نارکوٹکس ارشد مسعود نے وفاقی حکومت کی طرف سے اپنی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کرنے کے باعث 15کلوہیروئن کے کیس میں ملوث مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی وزیرقانون راناثناء اللہ کے خلاف کیس کی سماعت سے انکار کردیا،فاضل جج نے فریقین کے وکلاء کو بتایا کہ انہیں اس کیس میں وقفہ کے دوران وٹس ایپ پر نوٹیفکیشن موصول ہواہے کہ میری خدمات وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کو واپس کردی ہیں۔رانا ثناء اللہ کی ضمانت کی درخواست پر ملزم کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے کے بعد فاضل جج نے اینٹی نارکوٹکس کے وکیل رانا کاشف سلیم سے اپنے دلائل دینے کو کہا تو انہوں نے موقف اختیار کیا کہ مجھے اس مقدمے سے رات کو ہی منسلک کیا گیا ہے اس لیے مجھے اس کیس کو سمجھنے کیلئے وقت چاہیے،جس پر عدالت نے وکیل کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ فائل دیکھ لیں جس کے بعد سماعت ایک گھنٹے کیلئے ملتوی کر دی گئی، مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو فاضل جج نے کہا کہ واٹس اپ پر نوٹیفکیشن موصول ہوا ہے، حکومت نے ان کی خدمات ہائی کورٹ کے سپردکردی ہیں،اب وہ کیس کی مزیدسماعت جاری نہیں رکھ سکتے،فاضل جج نے مزید کہا کہ ا نہوں نے ہمیشہ ایمانداری سے کام کیا، میں اللہ کوجوابدہ ہوں ہمیشہ اللہ کی رضا کیلئے کام کیا ہے، رانا ثناء اللہ یا کسی کا بھی مقدمہ ہو فیصلہ میرٹ پر ہونا تھا،اس دوران رانا ثناء اللہ کے وکلا اور جج کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، رانا ثناء اللہ کے وکیل نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے،اے این ایف اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکتا،اس لئے حیلے بہانے کئے جا رہے ہیں، ہمیں یہ بھی پتا ہے پچھلے ایک گھنٹے میں کیا ہوا ہو گا، وکلاء نے فاضل جج سے کہا کہ کیس کی سماعت کرکے فیصلہ ہی دے جائیں،جس پر فاضل جج نے جواب دیا کہ سماعت کا اختیار اب میرے پاس نہیں ہے،جس پرنیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ یہ نوٹیفکیشن پہلے ہی ہوچکا ہے، اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے،رانا ثناء اللہ کے وکلا ء نے مزیدکہا کہ اب تو جج بھی کہہ رہے ہیں کہ وٹس ایپ پر تبدیل ہو گیا ہوں۔ گزشتہ روزسپیشل جج اینٹی نارکوٹکس ارشد مسعود کی عدالت میں رانا ثنا اللہ اوردیگر پانچ ملزمان کے کیس میں ملزمان کی درخواست ضمانتوں کی سماعت ہوئی،رانا ثنا اللہ کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ اورزاہد بخاری نے موقف اختیار کیا کہ رانا ثنا اللہ کو سیاسی طور پرکیس میں ملوث کیا گیاہے،گرفتاری کے وقت ان کی میڈیکل رپورٹس ملیں،جس سے پتہ چلا کہ وہ بیمارہیں،عدالت سے رحم کی اپیل کی گئی،فاضل جج نے مذکورہ بالا ریمارکس کے ساتھ کیس کی سماعت 7ستمبرتک ملتوی کردی۔
جج تبدیل
لاہور(نامہ نگار خصوصی)وفاقی حکومت کی طرف سے ڈیپوٹیشن کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی لاہور ہائی کورٹ کو خدمات کی واپسی کے بعد رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کیس کی سماعت کرنے والے انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشداور شریف فیملی کے خلاف نیب مقدمات کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج نعیم ارشد نے اپنے عہدوں کا چارج چھوڑدیاہے،خدمات کی لاہور ہائی کورٹ کوواپسی کے بعد احتساب عدالت نمبر ایک لاہور کے جج مشتاق الٰہی نے بھی گزشتہ روز کام نہیں کیا۔وفاقی حکومت نے ان ججوں کے متبادل کے طور پر لاہور ہائیکورٹ سے دیگر سیشن ججوں کی خدمات طلب کی ہیں،اس سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے نام وفاقی وزارت قانون کے خط میں کہا گیاہے کہ ان میں سے ہرایک آسامی پر تقررکیلئے اہل سیشن ججوں کے نام پینل کی شکل میں بھجوائے جائیں۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردارمحمد شمیم خان ان دنوں گلگت میں ہیں،ان کی واپسی کے بعد اس معاملے پر غورکیا جائے گا۔جن سیشن ججوں کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کی گئی ہیں،ان میں سے مسعود ارشد کی خدمات فروری 2017ء میں 3سال کے لئے وفاقی وزارت قانون کے سپرد کی گئی تھیں اور 7فروری 2017ء کو انہیں لاہور کی انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کا جج مقرر کیا گیاتھا۔انہوں نے قانون کے تحت 6فروری2020ء تک اس عہدہ پر برقرار رہنا تھا۔مسعود ارشد یکم اگست 2000ء کو ایڈیشنل سیشن جج مقررہوئے، جنہیں 9جون 2009ء کو سیشن جج کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی۔میاں شہباز شریف،حمزہ شہبازاورمریم نوازشریف سمیت شریف فیملی کے ارکان کے خلاف نیب کیس کی سماعت کرنے والے سیشن جج نعیم ارشد کو جون2019ء میں احتساب عدالت نمبر5لاہور کا جج مقررکیا گیا تھا،ان کی خدمات جون2022ء تک وفاقی حکومت کے سپرد کی گئی تھیں،نعیم ارشد 13مئی2004ء کو ایڈیشنل سیشن جج تعینات ہوئے تھے جس کے بعد 16اکتوبر2016ء کو سیشن جج کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی،اسی طرح مشتاق الہٰی کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کئے جانے کے بعد جون 2019ء کوتین سال کیلئے احتساب عدالت نمبر ایک لاہور کا جج مقررکیا گیا تھا،ان کی خدمات کی واپسی کا طے شدہ سال 2022ء مقررتھا۔مشتاق الٰہی 28جولائی 2006ء کو ایڈیشنل سیشن جج مقررہوئے تھے اور انہیں 2جنوری2016ء کو سیشن جج کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی۔ان ججوں کے خلاف کوئی انکوائری زیرالتواء ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ ان کی خدمات کیوں واپس کی گئی ہیں۔اس سے قبل جولائی 2019ء میں وفاقی وزارت قانون کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرارکو ایک خط لکھا گیاتھا جس میں کہا گیاتھا کہ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد کی غیر جانبداری اور ساکھ کے مسائل سامنے آئے ہیں لہٰذا رجسٹرار یہ خط لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھیں تاکہ ان کی جگہ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں کسی غیر جانبدار جج کو تعینات کیا جاسکے۔لاہورہائیکورٹ کی طرف سے اس بابت کسی کارروائی سے قبل ہی ان کی خدمات کی واپسی کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا،مسعود ارشد اس وقت پنجاب کی عدلیہ میں 11ویں سینئر ترین سیشن جج ہیں،وہ 5فروری 2022ء کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچیں گے۔ وزارت قانون کی طرف سے بھیجے گئے خط پر غیر جانبدار ماہرین قانون تعجب کا اظہار کررہے ہیں،ان کا کہناہے کہ عدلیہ خودمختارادارہ ہے جوحکومت کے ماتحت نہیں،ججوں کو مقررہ مدت سے قبل عہدوں سے ہٹانا آئین میں عدلیہ کی آزادی کی دی گئی ضمانت کے منافی ہے۔
ڈیپوٹیشن مکمل نہ ہوسکی