ایف بی آر نے سرینا عیسیٰ کی لندن فلیٹس سے متعلق وضاحت مسترد کردی، قاضی فائز عیسیٰ کیلئے مزید مشکلات کا خدشہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی لندن فلیٹس کے بارے میں وضاحت مسترد کردی، یہ دعویٰ سینئر صحافی زاہد گشکوری نے کیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ " مسز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کی 300 ایکڑ زمین ، کرایہ ، کلفٹن کے دو گھروں کو بیچنے اور نوکری سے آنیوالی پوری انکم ایف بی آر نے غیر قانونی طورپر نظرا نداز کردی، اس اقدام سے مستقبل قریب میں ان کے خاوند کی قانونی مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ ہے "۔
Breaking: FBR rejects Sarina Isa's explaination on London Flats.Mrs.Isa says FBR unlawfuly disregarded her entire income came from 300 acrs land,rents,seling 2 Clifton houses & 38rs job.This move suggests legal trouble for her husband in near future.We tell U more with @GeoASKKS
— Zahid Gishkori (@ZahidGishkori) August 28, 2020
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا۔
مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔
اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف زیر کفالت اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔
جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔