اک راستہ ہے زندگی 

 اک راستہ ہے زندگی 
 اک راستہ ہے زندگی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ”وہ تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے تھے مگر جب پاکستان بن گیا تو محسوس ہوا کہ انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا ہے، سرکاری افسر جو مغربی پاکستان سے آتے ان سے غلاموں کا سا سلوک کرتے۔ پٹ سن وہ پیدا کرتے  اور اس سے جو زر مبادلہ آتا وہ مغربی پاکستان میں خرچ ہوتا جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو دونوں کی حصوں کی فی کس آمدنی میں 30 فیصد فرق تھا جو ایوب کے جاتے جاتے 65 فیصد ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا  پس منظر بیان کرنے والی یہ سطور حال ہی میں شائع ہونے والے ناول ’اک راستہ ہے زندگی‘ سے لی گئی ہیں جو ناول نگار رفیع مصطفی نے ان گمنام افراد کے نام منسوب کیا ہے جو بنگلہ دیش کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دل تھام کے غور کیا جائے تو بنگلہ دیش کا قیام دراصل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی دوحصوں میں تقسیم کا حاصل تھا جس کے دوران غیر بنگالیوں اور بنگالیوں کی بہت بڑی تعداد اس ہی نوعیت کے فسادت کا شکار ہوئی جس نوعیت کے فسادات ہندوستان کی تقسیم کے وقت رونما ہوئے تھے، فرق صرف یہ تھا کہ اس دفعہ مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے۔ فسادات کی نظر ہونے والے ان افراد میں مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں مقیم اس ناول کا ایک کردار غفار خان بھی تھا جو اپنی جان سے ہاتھ دھونے سے صرف دو سال قبل ہی اپنے بچھڑے ہوئے اکلوتے بھائی پیارے میاں سے 23 سال بعد ملا تھا۔ غفار خان قیام پاکستان سے قبل بچپن میں گھر سے بھاگ کر یوپی سے کلکتہ پہنچا تھا جہاں اس نے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کے دوران بنگلہ زبان میں ایم اے کر لیا تھا جس کی بنا پر اسے پاکستان بن جانے کے بعد مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ غفارخان کی اپنے جس بچھڑے ہوئے بھائی پیارے میاں سے ملاقات ہوئی تھی وہ مغربی پاکستان میں سندھ کے شہر حیدرباد سے اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچا تھا۔ اس ناول کی کہانی انہی دوفسادات کے دوران یوپی کے ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے جو امیر خسرو کے شہر ایٹہ سے بڑی مشکل سے جان بچا کر اتفاقا حیدر آباد آپہنچا تھا اور پھر وہیں کا ہوکررہ گیا۔ ناول نگار نے اپنے ناول میں  اجڑے ہوئے خاندان کی پاکستان میں بقا کے لئے جدوجہد کا نقشہ تو بخوبی کھینچا ہے ہی لیکن اس سے قبل کئی نسلوں سے ایٹہ میں آباد متوسط طبقے کے ارد گرد یوپی کی ثقافت کی منظر کشی بھی اتنے عمدہ طریقے سے کی ہے کہ یوپی سے تعلق رکھنے والے اکثر خاندان ممکن ہے اسے اپنی کہانی سمجھیں۔ ناول کا مرکزی کردار ترکِ وطن کرکے آنے والے خاندان کے سربراہ منو میاں ہیں جن کے ارگرد گھومنے والے کرداروں میں ان کے بہنوئی پیارے میاں کا کردار اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل  ہے کہ اس کے ذریعے ناول نگار نے بچوں کی تربیت کے لئے ان پر تشدد کے استعمال سے شخصیت پر رونما ہونے والے انتہائی نقصان دہ اثرات کی طرف توجہ دلائی ہے۔

یہ اثرات پیارے میاں پر ان کی شخصیت مسخ ہونے کی صورت میں اس تشدد کے باعث رونما ہوئے جو والد کے انتقال پر ان کے سرپرست تایا انہیں سیدھے راستے پررکھنے کے لئے ان پر کیا کرتے تھے۔ اس رویے کے سبب انہیں اپنے تایا سے نفرت سی  ہوگئی تھی۔ان کے بڑے بھائی غفار خان اس ہی سلوک سے عاجز آکر گیارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگے تھے۔ شخصیت میں اتار چڑھاو کے سبب پیارے میاں کا غصہ اس قدر تیز ہوگیا  تھا کہ پاکستان آنے سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک انگریز کو اس کی بیوی کی موجودگی میں گردن مروڑ کر اس وقت ہلاک کردیا تھا جب وہ ان کے ساتھ حقارت آمیز انداز میں پیش آیا تھا۔ یہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ جب انگریزسے ان کا اتفاقا آمنا سامنا ہواتھا تو اس کے پوچھنے پر انہوں نے اسے اپنا اصلی نام قہار خان بتایا تھا جو اس کی بیوی کو یاد رہ گیا تھا۔ چنانچہ پولیس ہرطرف قہار خاں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جبکہ پیارے میاں  کو دور دور تک سب لوگ صرف اس ہی نام سے جانتے تھے۔ اس دوران پاکستان بن گیا اور وہ یہاں آگئے۔پیارے میاں کو اپنی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کے سبب معمول کی زندگی گزارنے میں شدید دشواریوں کا سامنا رہا۔ گاہے بگاہے ان کے اچانک گھر چھوڑ کر چلے جانے سے منو میاں کو بھی پریشانی رہی جن کی ہمشیرہ سے پیارے میاں کا رشتہ اس لئے ہوگیا تھا کہ ان کے والد پیارے میاں کے تایا کے دوست تھے لیکن بہرحال  اپنا دکھ سمجھنے والوں کی کوششوں سے جن میں ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں پیارے میاں اپنی بگڑی ہوئی طبیعت کی سلوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔  انہوں نے اپنے تایا کو بھی نہ صرف معاف کردیا بلکہ انہیں حیدرآباد کے ایک محلے میں واقع  اس جھونپڑی سے اٹھا کر گھر لے آئے جہاں وہ بیماری میں مبتلا کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اپنی طبیعت کے  پل صراط سے گزر کر یہاں تک پہنچنے میں پیارے میاں کو بیس سال لگے تھے۔ کہانی کے اس موڑ پر انہیں اپنے بڑے بھائی کا پتہ بھی اتفاقا مل گیا جن سے خط و کتابت کے بعد ان کا جوان بیٹا جب باریسال سے حیدرآباد آیا تو نئی نسل کے درمیان جنم لینے والی رومان اور رقابت کی کہانی نے ناول میں ایک اور چاشنی پیدا کردی۔ رقابت کا سبب ناول کے مرکزی کردار منو میاں کا جوان بیٹا تھا جو بچپن سے ہی اپنی پھوپھی زاد بہن کو پسند کرتا تھا اس کشمکش میں بالآخر بچپن کی محبت کامیاب رہی۔ ہندوستان سے آنے والوں کی نئی نسل کی کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے اس ناول کا آغاز تقسیم ہند کے وقت رونما ہونے والے ان  بھیانک فسادات کی یاد دلاتا ہے جن  کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی تھی۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس پر اس زمانے میں کئی ناول لکھے گئے تھے جن میں سے قرۃ العین حیدر کا  آگ کا دریا اور عبداللہ حسین کا اداس نسلیں کاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔ اس دلخراش موضوع پر منٹونے بھی بہت کچھ لکھا جن کے افسانوں کی گونج  آج ستر سال بعد بھی ملک کے ادبی حلقوں میں گاہے بگاہے سنائی دیتی ہے لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے وقت رونما ہونے والے اسی نوعیت کے ایک عظیم تر المیے پر جس نے پاکستان کا چہرہ ہی مسخ کردیا  گنے چنے ناول ہی دکھائی دیتے ہیں۔ان میں طارق محمود کا ناول  ”اللہ میگھ دے“ اور رضیہ فصیح احمد کا ناول  ”صدیوں کی زنجیر“ قابل ذکر ہیں جو پچاس سال کی وسعت میں پھیلے ہوئے اس موضوع پر ادب کے وسیع و عریض قبرستان میں اکا دکا چراغوں کی طرح تمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ المیہ صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی تقسیم کے نتیجے میں راتوں رات اپنے وطن کی شہریت سے محروم کر دیئے جانے والے ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کے بارے میں جن کی تیسری نسل بنگلہ دیش میں ریڈ کراس کے کیمپوں میں جوان ہو رہی ہے شاید ہی کوئی قابل ذکر ادبی تحریر ملتی ہو۔پاکستان پر جان چھڑکنے والے یہ چند لاکھ بے گھر اور بے وطن افراد کا کیا شمار یہاں تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان پر قربان ہونے والے ہندوستان کے ان  بیس کروڑ مسلمانوں کا دکھ درد بانٹنے والا  بھی کوئی نہیں جووہاں دلتوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔یہ وہ راندگاں درگاہ ہیں  جن کے آباؤاجداد تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے اور جنہیں یقین تھا کہ ایک مضبوط اور طاقتور پاکستان ان کے حقوق کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکے گا۔ اس تناظر میں رفیع مصطفی کا یہ ناول جس تک رسائی گوگل سے کی جا سکتی ہے  اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کی تارِیخ میں انتہائی اہمیت کے حامل دوں وں فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے بلکہ اس دوران  ترکِ وطن کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والی نئی نسل کو پاکستان میں ضم ہونے کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریوں کا بھی انہیں کوئی سیاسی رنگ دئے بغیربخوبی احاطہ کیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -