ہندو فسطائیت میں اضافہ
بھارت، نریندر مودی کی فسطائیت کے زیر اثر مسلمانوں کے لئے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے۔ مودی کے بھارت میں ہر وقت مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات منڈلا رہے ہیں جبکہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور نریندر مودی کا بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے اکسانے والے ہندو انتہا پسند رہنماؤں سے گہرا تعلق ہے۔اس سلسلے میں ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ حجاب پر پابندی نے ایک بار پھر مودی کی مسلمانوں کیخلاف گہری نفرت کو بے نقاب کیا ہے۔ مودی 2002ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ نریندر مودی گجرات اور بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے۔
نریندر مودی کے2014ء میں وزیراعظم بننے کے بعد سے ملک میں ہندو توا فسطائیت میں شدت آئی ہے۔ بھارت میں اقلیتیں اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اس بڑھتی ہوئی ہندو فسطائیت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ نو برسوں میں پورے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
نریندر مودی جو نازی نظریے کی پیروی کرنے والی انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے رکن ہیں، پوری دنیا میں ہندوتوا سے متعلق سرگرمیوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت ہندوتوا نظریہ مرکزی دھارے کی سیاست بن چکا ہے اور آر ایس ایس،بی جے پی اتحاد بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی مقبوضہ کشمیر اور پورے بھارت میں اپنی ہندوتوا پالیسیوں کو منظم طریقے سے آگے بڑھا رہا ہے۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت نے منظم طریقے سے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔ مودی کی انتہا پسند ہندوتوا پالیسیوں کے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر لازم ہے کہ وہ بھارتی اقلیتوں اور کشمیری مسلمانوں کو ہندو فسطائیت سے بچانے کے لیے آگے آئیں۔
اتر پردیش (یوپی)، جو دوسوملین آبادی رکھنے والا سب سے بڑا بھارتی صوبہ ہے (گویا یہ صوبہ پاکستان سے بھی زیادہ آبادی رکھتا ہے)کے صوبائی انتخابات کے نتائج نے بھارت پر ہندوفسطائیت کا تسلط مضبوط کردیا ہے۔ یو پی پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے حکمراں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)اور اس کا انتہا پسند ہندو نظریہ بھارت پر اپنا قبضہ مکمل کرنے اور اسے خالص ہندودیس میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔یہ مقصدحاصل کرنے کیلئے ویر سیوارکر، جو ہندو انتہا پسندی کا سرچشمہ ہے، نے قتل اور آبروریز ی کو اہم اور درست اقدامات کے طور پر تجویز کیا ہے۔
یہ وہ صوبہ ہے جہاں ہندوانتہا پسندی نے کامیابی سے مسلمانوں کیخلاف زہریلا بیانیہ پھیلایا۔ 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد کا انہدام اور اسکے بعد مسلم مخالف منظم فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت نے پورے بھارت کی رگوں میں مسلم عصبیت کا زہر بھر دیا۔
پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں کی سرکاری ایجنسیوں اور عملے نے مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور ان کے کاروبار کی جگہوں پر بلڈوزر چلا کر انہیں گرانے کی شروعات کی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے شبہ پر کیا جا رہا ہے۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس پالیسی کو اپنی انتخابی مہم میں فخر یہ مشتہر کیا ہے۔
اپنے دفاع میں سرکاری عملہ زور دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہا، بلکہ وہ بس غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کو گرا رہا ہے۔ یہ صرف ایک قسم کی میونسپل صفائی مہم ہے۔ وہ وجہ آپ کو یقین دلانے کے لیے ہے بھی نہیں۔ یہ تو مذاق اڑانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ورنہ حکومتیں اور زیادہ تر ہندوستانی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر ایک قصبے اور شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا جزوی طور پر ہی قانونی ہیں۔
یہ حکومت 400 ٹی وی چینلوں، لاتعداد ویب سائٹس اور اخباری میڈیا کی مدد سے مذہبی بنیاد پرستی اور نفرت کو ہوا دیتی رہتی ہے۔ اس میں ہندو مسلم علیحدگی کے دونوں اطراف سے اٹھنے والے، زہر فشانی کرتے خستہ حال کردار آگ لگاتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ روزمرہ کی بات بن چکی ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں کو، جس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے بچ کر نکل سکتے ہیں؟ کیسے ہم اس کی مخالفت کر سکتے ہیں؟