کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت پنجاب پولیس کی طرف سے سول حکمرانی کے سر کا صدقہ ہے۔ فوج اور رینجرز کو آپریشن سے روک کر پولیس کو میدان میں اْتارنے کا فیصلہ سول بالادستی منوانے کی ضد تھی جس کی بھینٹ یہ 12 شیر جوان چڑھے۔7زخمی بھی ہوئے اور ایک کو اغواء کر لیا گیا۔کچے کے علاقے میں پولیس ملازمین کے شہید ہونے یا اہلکار کے اغواء ہونے کایہ پہلاواقعہ نہیں۔اپریل 2016 میں کچے کے 'چھوٹو گینگ' نے 22 پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا جس میں 2ڈی ایس پی بھی شامل تھے۔ جوابی کارروائی کے دوران سات پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوج کی مدد مانگی اور یہاں آپریشن 'ضرب آہن' کیا گیا جس میں ڈاکوؤں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے گینگ کیخلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے، جس کے بعد چھوٹو گینگ نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کیخلاف ماضی میں ہونیوالے آپریشن میں پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج بھی شامل رہی ہے۔اس آپریشن اور چھوٹو گینگ کے سرغنہ کی گرفتاری کے بعد یہاں موجود ڈاکوؤں کی کمین گاہوں اور مورچوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور کچے میں ڈاکوؤں کی دہشت کا وقتی خاتمہ ہوا۔ لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد ہی یہاں چھوٹو گینگ کی باقیات کیساتھ ساتھ نئے ناموں سے مزید ڈکیت گینگ سامنے آئے جن میں عمرانی گینگ، لٹھانی گینگ، دشتی گینگ، سکھانی گینگ اور اندھڑ گینگ وغیرہ شامل تھے۔ان گروہوں نے رحیم یار خان، کشمور، راجن پور اور صادق آباد میں دہشت پھیلا دی جہاں آئے روز اغوا اور قتل کی وارداتوں میں بے پناہ اضافے کے بعد پولیس نے ایک اور آپریشن کیا۔ 2017 میں ایسے ہی ایک مقابلے میں دو پولیس آفیسرز سمیت ایک کشتی ران کی ہلاکت ہوئی۔ اپریل 2019 میں لٹھانی، سکھانی اور لْنڈ گینگ کیخلاف آپریشن کیا گیا۔ مارچ 2021 میں رینجرز نے آپریشن 'ردالسارق' میں ڈاکوں کی کمین گاہیں تباہ کیں۔2021 میں بھی کچے کے علاقے میں دو پولیس اہلکاروں کو اغواء کیا گیا۔قتل اور اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام کیلئے گزشتہ سال اپریل میں کچے کے علاقے میں پنجاب پولیس نے ایک بار پھر آپریشن کا آغاذ کیا اور دعویٰ کیا گیا وہاں امن قائم کردیا گیا ہے اور کچے کے علاقے میں سکول اور میڈیکل فری ہسپتال قائم کردیئے ہیں مگر ان دعوؤں پر ڈاکوؤں نے 12پولیس اہلکاروں کو شہید7کو ذخمی اور ایک کو اغواء کر کے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جن کے مطابق کچے سے ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا چکا ہے۔خراب صورتحال کے پیش نظروہاں اب ایک روایت قائم ہوچکی ہے کہ اگر کسی کو تاوان کیلئے اغواء کر لیا جاتا ہے تو متاثرین پولیس سے مدد مانگنے کی بجائے تاوان کی رقم اداکرکے مغوی کی بازیابی حاصل کرلیتے ہیں،یا پھر وہ متاثرین جو تاوان ادا نہیں کرسکتے غریب ہونے کی صورت میں ان کی خواتین ہاتھوں میں قرآن اٹھائے منت سماجت کیلئے ڈاکوؤں کی کمین گاہوں پر پہنچ جاتی ہیں۔یہ لوگ ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کی بھی مدد حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ ان کی مالی پوزیشن کے بارے میں بتاسکیں۔جن علاقوں میں پولیس عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر ایسے علاقوں میں لوگ ڈاکوؤں کی سہولت کاری کرتے ہیں اور اس طرح خود کو اْن سے محفوظ بناتے ہیں۔ لوگ جانتے تھے اگر پنجاب پولیس اس قابل ہوتی تو جھنگی سے شاہ والی تک چھوٹو مزاری‘ علی باز گیر‘ چوٹانی‘ جتانی‘ مندوانی اور گوپانگ گینگ وجود میں کیوں آتے۔ بار بار روجھان کے نواح سے پولیس اہلکار اغوا کیوں ہوتے اور انہیں تاوان دے کر چھڑانے کیلئے بعض سرداروں کی خدمات حاصل کیوں کرنا پڑتیں؟ حالیہ آپریشن میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ ناکافی معلومات یا خوش فہمی کی بنا پر گینگ کے سرپرست سرداروں کو گرفتار کیے بغیر پولیس کو ایک ایسے علاقے میں بھیج دیا گیا‘ جو وسیع و عریض جنگلات‘ دلدل اور ڈاکوؤں کے جدید جاسوسی نیٹ ورک کی وجہ سے ناقابل رسائی تھا اور مزاحمتی گروہ کی تعداد کے علاوہ صلاحیت کار کے حوالے سے بھی غلط اندازے لگائے گئے۔12پولیس اہلکاروں کی شہادت معمولی واقعہ نہیں، یہ اچانک حملہ تھا، نہ کسی خودکش بمبار کی کارستانی کہ 12 جیتے جاگتے انسان لقمہء اجل بن گئے۔آپریشن کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان ڈاکوؤں‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اور ان کی پناہ حاصل کرنیوالے دہشتگردوں کے سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ نام کیا لینا بعض مزاری‘ گورچانی سرداروں کے رابطے کسی سے مخفی نہیں۔ یہی اپنے کارندوں کے ذریعے معلومات اور پناہ گاہیں فراہم کرتے اور آپریشن میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔کچے کے علاقے میں گینگ کا سربراہ سرداروں کے بل بوتے پر قاتلوں، دہشتگردوں اغوا کاروں کو پناہ دیتا اور اپنے کارندوں کی گرفتار ی پر رہائی کا بندوبست کرتا ہے۔پولیس اور انتظامیہ میں ان کے مخبر صرف ادنیٰ اہلکار نہیں بے ضمیر افسر بھی ہیں۔اب یہ کروڑوں کا کاروبار ہے اور علاقے کے معصوم و قانون پسند شہریوں پر دھاک بٹھانے کا ظالمانہ طریقہ۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کی طرح کوہ سلیمان کے دامن میں بھی ان گروہوں کی پناہ گاہیں ہیں جہاں دنیا جہان کی سہولت انہیں حاصل ہے۔نگران دور میں آپریشن کا کیا گیا یہ فیصلہ کسی طرح بھی خوش آئند نہیں ہے۔پچھلے پچیس تیس سال سے عوام کے سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ جدید اسلحے‘ سراغ رسانی کے آلات اور تربیت سے آراستہ پولیس فورس عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو چکے اور تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیا گیا مگر آزمائش کی گھڑی میں سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پتہ چلا سفارشی بھرتیوں اور سیاسی مداخلت نے اس فورس کو تباہ کر دیا ہے اور یہ صرف ماڈل ٹاؤن میں بیگناہ مذہبی کارکنوں کو گولیوں سے بھون سکتی ہے یا جعلی پولیس مقابلے میں اپنی بہادری اور مہارت کے جوہر دکھانے کی اہل ہے‘کسی ڈاکو‘ دہشتگرد‘ اغوا کار اور مسلح گروہ‘ کا مقابلہ کرنا‘ اس کے بس میں نہیں۔ قصور پولیس فورس کا نہیں‘ اسے ذاتی اور خاندانی مفادات کیلئے استعمال کرنیوالے طبقے کا ہے جس کی مداخلت نے پنجاب پولیس کو اس حال تک پہنچایا۔