مسائل کیسے حل ہوں گے؟
اس وقت ہم اٹھارہ کروڑ لوگ بہت مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں ،بے بس لوگوں کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔ نہ تعلیم ہے، اگر تعلیم ہے تو ملازمت نہیں ہے انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو بڑا اور طاقتور جھوٹ بول لے، وہ خود کو سچا ثابت کر دیتا ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ مجرم، جرائم پیشہ اور لٹیرے دندنا رہے ہیں، اب کارخانوں، فیکٹریوں کے لئے نہ بجلی، نہ گیس، کام ٹھپ، طاقت ور برسر اقتدار طبقے کے قومی خزانے سے درو دیوار ہمیشہ روشن رہتے ہیں ان کے جنریٹروں کا ڈیزل عوام کے ٹیکسوں سے خریدا جاتا ہے خون بہایا جا رہا ہے، خودکشیاں ہو رہی ہیں، ڈاکے قتل، اغواء عروج پر ہیں، رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہ لوگ شادیوں پر نوٹوں کی بارشیں کرتے ہیں۔ بے شمار کھانوں کی اعلیٰ ڈشیں، منوں کے حساب سے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں۔ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں دس بیس ہزار کی چوری کرنے والے سلاخوں کے پیچھے بند ہو جاتے ہیں، دس بیس کروڑ کی چوری کرنے والے مہذب بن جاتے ہیں، چند ایک کبھی کبھی گرفتار ہوتے ہیں۔
18 کروڑ عوام جن میں بہت زیادہ تعداد کمزوروں کی ہے، پریشان ہیں پانچ فیصد طاقتور لوگ 95 فیصد کے آقا ہیں، غلام اور کمزوروں کا بس، خود کشیوں پر چلتا ہے بے شمار سفید پوش لوگ گھریلو پریشانیوں پر خود کشی کر لیتے ہیں۔ منشیات، شراب، ہیروین، چرس، افیون بنانے والوں کو لائسنس دیئے جاتے ہیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اس حکمران طبقے اشرافیہ، بدمعاشوں اور کھوٹے سکوں سے کس طرح نجات دلائی جائے، کیونکہ پاکستانی عوام کے طاقت ور دشمن سرگرم ہو چکے ہیں، یہ جو دہشت گردی کا سلسلہ ہے یہ چند بھٹکے ہوئے سرپھروں یا کسی خاص نظریئے والوں کا عمل نہیں، بلکہ دشمن کا طے شدہ منصوبہ ہے۔ پہلا منصوبہ تو یہ تھا کہ اس ملک کو جنگوں میں الجھا کر اس کو کمزور کیا جائے، لیکن جب پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا تو جنگ والا منصوبہ بند کر دیا گیا اور دوسرے منصوبے شروع کر دیئے گئے۔
اس نئے منصوبے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو بھارت اور پاکستان کی جداگانہ حیثیت کو متنازعہ بنا دیا جائے اور یہ سوال اٹھایا جائے کہ اس تقسیم کا کیا فائدہ ہے، دوسرا نظریہ پاکستان کو کمزور اور نا تواں کرنے کے لئے اس پر ثقافتی یلغار کی جائے، اس پر تو بحث جاری ہے اور جاری رہے گی۔
اب پاکستانی عوام کے اندر بیداری کی ایک لہر اُٹھی اور انہوں نے عام انتخابات میں اپنی زبردست کمزوری کے باوجود ایک حکومت کو رد کر دیا اور دوسری کو کامیاب کر دیا مگر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ پہلی اور دوسری سب ایک جیسی ہیں، اور دونوں نے مل کر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔ مسلمانوں کے قائدؒ کی قیادت میں اس خطے کے مسلمانوں کا پہلا جمہوری انقلاب خود اس ملک کے قیام کا معرکہ تھا لیکن اس کے بعد مارشل لاء پر مارشل لاء آتے رہے۔ مارشل لاؤں نے اس ملک کے بگڑے ہوئے اشرافیہ کو اس حد تک مزید بگاڑ دیا کہ اس میں کسی اصلاح اور تبدیلی کا عنصر ہی ختم ہو گیا۔ اس صورت حال کو ختم کرنا، اس ملک کی بقاء کے لئے لازم ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد خوش نصیب ملک تھا جسے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ بتا دیا گیا تھا، وہ طریقہ جسے آج تک بڑے سے بڑا انقلابی اور مفکر بھی تسلیم کرتا ہے یہ تھا وہ عادلانہ اور مساویانہ نظام جو انسانوں کے لئے آسمان سے نازل ہوا۔ اس آزادی کے ساتھ کہ وہ چاہے تو اپنی اصلاح، فلاح اور سلامتی کے لئے اس نظام کو اختیار کرے یا اسے مسترد کر کے کوئی اور طریقہ زندگی اختیار کرے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے مسلسل اقرار تو کیا کہ اسلام ہی ہمارا آئین اور زندگی کا نظام ہے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا اس منافقت دوغلی پالیسی کا جو نتیجہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے، آج ہم اپنے خطے بلکہ دنیا بھر میں ایک بدنام اور کمزور قوم اور ملک بن کر سانس لے رہے ہیں۔ کسی کا جب جی چاہتا ہے وہ ہمارے گھر کے کسی حصے پر بم مار دیتا ہے اور یہ وہ ہر روز ہی کرتا ہے تاکہ ہمیں سکھ کا سانس لینا نصیب نہ ہو اور ہم زندگی کا کوئی طریقہ اختیار نہ کر سکیں۔ چونکہ ہم لوگ بھوک اور افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے دوسرے ملکوں سے قرضوں کی بھیک مانگ کر نظام حکومت چلانے کی کوشش کی ہے اور اس قدر زیادہ قرضے لئے ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہزاروں ڈالروں کا مقروض ہے۔ یہ ناقابل برداشت اور مسلسل رسوائی کا بنیادی سبب کوئی بیرونی نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیاں ہیں۔ اب تو خاص طور پر ملک کے اہم اور بنیادی اثاثوں کوہی بیچا جا رہا ہے۔ پہلے والے ملک کو سلامت رکھتے تھے اور اس کی آمدنی کھاتے تھے، اب انہوں نے آمدنی کے ذریعوں کو ہی فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ ساری صورت حال جو قومی سطح پر ماتم برپا کرنے والی ہے کس طرح ختم ہو سکتی ہے اس پر غور کی ضرورت ہے۔