بلاول کہاں ہے؟ جیالوں کے اصرار پر!
بھٹو کے سپاہی اور بے نظیر کے بھائی، جیالے بہت بے چین اور مضطرب ہیں، وجہ کہتے ہیں کہ اگر پورے خاندان اور سینکڑوں کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد بھی منزل قریب آنے یا منزل پا لینے کی بجائے یہ اور دور ہوتی چلی جائے تو قربان ہونے والوں کی روحیں تڑپتی ہوں گی۔ برسی کے حوالے سے محترمہ کی اپنی تحریر پر مبنی کالم پڑھ کر تین چار جیالوں نے فون کیا، وہ دریافت کررہے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو اپنی جان قربان کی۔ ان کو لیاقت باغ کے جلسہ میں آنے کے لئے روکنے کی کوشش کی گئی، سرکاری طور پر کہا گیا ، خود اپنوں نے منع کیا لیکن محترمہ کسی خوف کو قریب نہ لائیں اور جلسے میں آکر جان دے گئیں۔ آج وہ تو امر ہیں لیکن تشنہ سوالات کا جواب نہیں ملتا، ایک بالکل جلے بھنے دیوانے نے پوچھا، ذرا حساب تو لگائیے، محترمہ کی قربت والے حضرات آج کتنی مالیت کے حامل ہیں اور کون کیا تھا اور اب کیا ہے؟ ایک اور صاحب پوچھتے ہیں کہ محترمہ کی شہادت کی پرتیں کیوں نہیں کھلتیں اور پھر سب سے بڑا سوال ہے کہ محترمہ نے مفاہمت کی جس سیاست کا ذکر کیا وہ کیا تھی، کیا محترمہ نے یہ کہا تھا کہ آپ فرینڈلی اپوزیشن کے جواب میں ٹھنڈی اپوزیشن بن جائیں اور عوامی مسائل ہی کو فراموش کردیں۔
بلاشبہ یہ سوال اہم ہے اور یہ جیالا خود ہی جواب نما سوال کرتا ہے، کیا وجہ ہے کہ مفاہمت کی تکرار اور دہائی وہی رہنما دیتے ہیں ،جن کے بارے میں غلط یا صحیح کرپشن کے الزامات ہیں اور ان کے بارے میں ایم بی بی ایس کا مفہوم میاں بیوی بال بچوں سمیت کی تشریح کی جاتی تھی، بہرحال اسلام آباد سے ضیاء کھوکھر مختلف اور اپنے انداز میں تشریح کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں، بی بی شہید جیسی بہادر، جرات مند اور ذہین قائد ملنا مشکل ہے اور انہوں نے مفاہمت کی جو سیاست کی اور کہا اس سے مراد یہ تھی کہ سیاست دان اسٹیبشلمنٹ کی ہنرمندی سے بچیں جو سیاست دانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے ایک دھڑے کو ساتھ ملا کر دوسرے دھڑے کو نیچا دکھانے کی سعی کرتی اور سیاست دان ٹریپ ہو جاتے ہیں، ضیاء کھوکھر کے مطابق جب آپ نوازشریف کے خلاف بیان دیتے ہیں تو دنیا والے اسے ذات کے خلاف نہیں پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف سمجھتے ہیں اور ایسے جب حالیہ سابقہ دور میں یا اس سے پہلے محترمہ کے خلاف خاک اڑانے کی کوشش کی گئی تو یہ بھی پاکستان کی وزیراعظم کے خلاف تھی اور تاثر یہ بنتا ہے کہ اس ملک میں کوئی ٹھیک بھی ہے؟ ضیاء کھوکھر کے مطابق مفاہمت کا مطلب نظام کو چلنے دینا اور تنقید کو عوامی مسائل تک محدود رکھ کر ذاتی توہین نہ کرناہے اور کسی کو دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اسٹیبلشمنٹ کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
اس سے زیادہ چبھتی ہوئی بات ایک شخص نے کی۔ اس کا نام تحریر کرنے سے گریز کہ اس کی طرف سے ایک ایسے رہنما کی ذات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ، جن کے بارے میں لکھا تو الزام خود ہم پر لگایا جائے گا کہ ’’کبھی ہم بھی وہ بھی تھے آشنا‘‘ وہ چونکہ بلاول بھٹو کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ اس لئے جیالے کا رخ ان کی طرف ہوا۔ بہرحال وہ آزردہ تھے کہ بلاول بھٹو نے اپنی پیاری والدہ کی برسی کی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ ان کا پارٹی کے حوالے سے استدلال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں’’میرے دونوں بیٹوں نے آج پوچھا ہے کہ بلاول کیوں نہیں آئے؟ اور محترمہ کی برسی کی مرکزی اور صوبائی تقریبوں کو چار دیواری میں محدود کرکے سیکیورٹی کے نام پر کارکنوں کو دور کیوں رکھا گیا ہے؟ وہ پوچھتے ہیں، کیا ان جاگیر داروں اور بڑے سرمایہ داروں اور ان کے بچوں کی جانیں زیادہ قیمتی اور ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جیالا رندھی ہوئی آواز میں کہتا ہے میرے بیٹوں نے واضح کر دیا ہے کہ اگر پارٹی کو یونہی کمروں میں بند رکھا گیا۔ خوف طاری رہا اور بلاول بھٹو کو قیادت نہ کرنے دی گئی تو پھر ہم پر کوئی پابندی اور مجبوری نہیں کہ ہم اپنا راستہ اپنے باپ کی بتائی راہ کے مطابق اپنائیں۔ ہم خود مختار ہیں اگر پارٹی کو یونہی چھپایا گیا تو ہم اپنا راستہ خود اختیار کرنے پر مجبور اور آزاد ہوں گے‘‘۔
یہ چند حضرات کے خیالات ہیں، اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کسی بھی ملک میں سیاست اور جمہوریت کے استحکام کے لئے مضبوط سیاسی جماعتوں کا وجود ہی معنی رکھتا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی ایک زندہ حقیقت ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں وجود رکھتی ہے جس کا اپنا نظریہ ہے ، اگر یہ جماعت ختم ہو گئی تو ایک ٹھوس اور مضبوط ملک گیر سیاسی جماعت نہیں رہے گی۔خلاء تو نہیں رہتا شاہد ہی کوئی اور جماعت اس حد تک پہنچ پائے جہاں بھٹو اور بے نظیر پیپلزپارٹی کو لے گئے تھے ، لیکن آج صورت حال مختلف ہے۔ ایک توسانحہ پشاور کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کو بہتر اور چوکنا رکھنے کی بجائے ان کو خوف کی فضا مہیا کرکے دہشت گردوں کی خواہش پوری کی جا رہی ہے ایسے میں اگر پیپلزپارٹی بھی اسی خوف کو طاری کر لے گی تو عوام کو اس صورت حال سے باہر کون نکالے گا، جو زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور مہنگائی کا جن ان کو سالم ہی کھاتا جا رہا ہے، پیپلزپارٹی نے 2008ء کے انتخابات میں بھی سیکیورٹی خدشات کے جواب میں بہتر انتظامات کی بجائے گھروں میں بیٹھ کر انتخاب لڑا ،نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ایسے میں بے نظیر بھٹو کی جدوجہد پر نظر ڈالیں تو مثالی نظر آتی ہے، ان کی زندگی کو خطرات ہر لمحہ اور ہر وقت تھے لیکن انہوں نے کبھی گبھراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی دبک کر بیٹھیں، وہ باہر نکل کر عوام سے رابطہ پسند کرتی تھیں اور کرتی رہیں،1980 کی دہائی میں محترمہ نے طویل ریلیوں میں شرکت کی۔ لاہور سے بہاول پور تک جلوسوں کی قیادت کی، ان کو کوئی بھی نہ روک سکا، ہمیں ان کے وہ سیکیورٹی گارڈ یاد آتے ہیں جو سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے، اب وہ نہ جانے کس حال میں ہیں، ایک اللہ کو پیارا ہوا تو ایک معذور ہو گیا، باقی دو معلوم نہیں کس حال میں ہیں کہ قائدین یہ پتہ ہی نہیں کرتے وہ کہاں ہیں؟
بلاول بھٹو اور آصفہ نے ٹویٹ کرکے جو پیغام دیا وہ واضح ہے ان کے لئے ان کی والدہ بے نظیر ہی آئیڈیل ہیں اور بلاول کی خواہش ہے کہ پارٹی کو بے نظیر کے نظریات کی روشنی میں چلایا جانا چاہیے۔ شائد بلاول کا یہی موقف بہت سوں کے ماتھوں کی شکنوں کا باعث بنتا ہے ۔ ہمیں یاد ہے اور پہلے ہی عرض کر چکے ہوئے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے تینوں بچوں کی خود پرورش کی، ان کو ہوم ورک خود کراتی تھیں اور پھر انہی کی تربیت وہی دلیری، جرأت اور بہادری والی ہوگی، چہ جائیکہ آپ کمروں میں گھس کر سیاست کریں۔