تخت لاہور اور جنوبی پنجاب کی محرومیاں
میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے، جس نے پاکستان کو اپنا ملک شعوری طور پر بنایا تھا۔ اس فیصلے میں نہ کسی حادثے اور نہ ہی جبرکا کوئی تعلق تھا۔ میرے دادا ہندوستان میں لائیو سٹاک کے محکمے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے۔ سرکاری ملازمین سے مرضی پوچھی گئی تو انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ آگے چل کر والد صاحب نے صوبہ سندھ میں سرکاری ملازمت اختیار کی۔ میری پیدائش اور میٹرک تک تعلیم کے مراحل سندھ کے شہر جیک آباد میں مکمل ہوئے۔ میری ذاتی دوستیاں اور والد صاحب کے حوالے سے خاندانی دوستیاں زیادہ تر سندھی اور بلوچ گھرانوں سے تھیں۔ سندھ میں تمام سرکاری معاملات خاص طور پر محکمہ مال میں سندھی زبان ہی سرکاری زبان تھی۔ مَیں آج تک سندھی زبان بول سکتا ہوں، بلکہ سندھی زبان لکھ اور پڑھ بھی سکتا ہوں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سندھی زبان واحد زبان ہے، جس کے حروف تہجی بھی اپنے ہیں۔ 1974ء میں ملتان آیا تو یہاں زیادہ تر سرائیکی اور پنجابی دوستوں سے دوستی کے رشتے استوار ہوئے۔ پاکستان سے محبت ایمان کی حد تک ہے، اس لئے پاکستان کی ہر چیز سے محبت بھی لازم ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے اور ہر زبان سے محبت پر مجھے ناز ہے، اسی لئے پاکستان کی تین بڑی زبانوں پر اتنا عبور ہے کہ بات کرتے کوئی گمان نہیں کر سکتا کہ میری مادری زبان کون سی ہے۔ سندھی، سرائیکی اور پنجابی پر عبور کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان پر بھی کچھ کچھ دسترس حاصل ہے۔
یہ ساری تمہید اپنی ذات یا ذاتی تفاخر کے لئے نہیں باندھی، بلکہ مقصد یہ ہے کہ مَیں مکمل طور پر پاکستانی ہوں ،نہ مجھے کسی علاقے ،نہ رنگ و نسل اور نہ ہی کسی زبان سے کسی قسم کا کوئی تعصب ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے زائد عرصے سے سرائیکی زبان کے چینل پر حالات حاضرہ کے حوالے سے پروگرام بطور اینکر کرتا رہا ہوں۔ اپنے پروگراموں میں بھی پاکستان سے محبت میرا مرکزی نکتہ ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ملتان میں بالعموم اور جنوبی پنجاب میں بالخصوص محرومیوں کے حوالے سے تختِ لاہور کی اصطلاح پھیلائی جا رہی ہے۔ عوام کے مسترد شدہ سیاستدان اپنی ناکامی کا بدلہ عوام میں نفرتیں پھیلا کر لے رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی بھی اپنی نااہلی کو چھپانے اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہونے کی ذمہ داری تخت لاہور کے ذمے ڈال رہی ہے۔ مَیں اپنے دوستوں اور دیگر افراد کو جب اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے دیکھتا تھا تو بڑا افسوس ہوتا تھا۔ مَیں انہیں سمجھاتا تھا کہ یہ چند عاقبت نااندیش لوگوں کی سازش ہے ،جو ملک میں اتحاد اور باہمی یگانگت ختم کرکے علاقائی عصبیت پھیلانا چاہتے ہیں۔ دشمن اس سے قبل مشرقی پاکستان میں یہ کھیل بڑی اچھی طرح کھیل چکا ہے۔ افسر شاہی کے چند ارکان اور ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والوں کے طرزعمل کو بنیاد بنا کر دشمن نے مغربی پاکستان کے خلاف اتنا زہریلا پرویپگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت اپنی محرومیوں کا ذمہ دار مغربی پاکستان کو سمجھنے لگ گئی تھی۔ اب ایک بار پھر پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں میں یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ان کی تمام محرومیوں کا ذمہ دار پنجاب اور پنجابی قیادت ہے، اسی حوالے سے تختِ لاہور کی اصطلاح سامنے لائی گئی ہے۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب عام آدمی کواس پروپیگنڈے کے بارے بتایا جاتا ہے تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر تختِ لاہور میری محرومی کا ذمہ دار نہیں ہے تو پھر کون ہے، جس نے مجھے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھاہے؟ یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب کم از کم میرے پاس تو بالکل نہیں ہے۔ آخر حکمرانوں کے اردگرد کون سے لوگ ہیں، جو انہیں پسماندہ علاقوں کے مسائل سے دور رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افسر شاہی کے حوالے سے تو بہتری کا امکان ممکن نہیں، لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ میڈیا میں، وہ چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک ،عوامی مسائل کے حوالے سے اتنا شور مچایا جاتا ہے، اس کے باوجود حکمرانوں کے کانوں اور آنکھوں تک یہ مسائل کیوں نہیں پہنچتے۔ بلوچستان اور اندرون سندھ کے مسائل تو وہاں کی صوبائی حکومتوں کی نااہلی کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں، لیکن سات سال سے زائد عرصے کی خادم پنجاب کی گڈگورننس حکومت نے جنوبی پنجاب میں جو اندھیرے پھیلائے ہیں، ان کا ذمہ دار کون؟ کیا خادم پنجاب صرف افسر شاہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراکر خود کو مبرا کر سکتے ہیں۔
ایسی ایسی حماقتیں اور نام نہاد رکاوٹیں ہیں کہ جس کے باعث جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں کی بات تو چھوڑیئے، ملتان جو پنجاب کا تیسرا بڑا شہر ہے، آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ سات سال قبل یوسف رضا گیلانی نے اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں ملتان میں 65سال بعد کچھ بڑے منصوبے شروع کرائے تھے۔ ان منصوبوں کے حوالے سے پورے ملک میں شور مچایا گیا کہ سارے ملک کے فنڈ ملتان پر خرچ کئے جا رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ تین سڑکوں، پانچ فلائی اوور اور ایک انٹرنیشنل ائرپورٹ کے علاوہ دریائے چناب پر ایک نیا پل تعمیر کیا گیا،ان سارے منصوبوں کی کل لاگت لاہور کی میٹرو بس کے منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم سے کم تھی۔ لاگت کا مسئلہ تو ایک طرف آج سات سال گزر جانے کے باوجود سوائے دریائے چناب پر نئے پل کے اور کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔ ائرپورٹ کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے، لیکن وہاں جانے کے لئے نہ سڑک موجود ہے اور نہ بجلی ، اس لئے آپریشن کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ بوسن روڈ اور شجاع آباد روڈ کے کچھ حصے مکمل ہو سکے ہیں۔ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کام رُکا ہوا ہے۔ جب پوچھا جائے کہ یہ تو منظور شدہ منصوبے تھے، ان کے فنڈ کیوں رُک گئے تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
مرکزی حکومت کے منصوبے ایک طرف، صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ سات سال میں جتنے بھی منصوبوں کا اعلان کیا گیا،ایک پر بھی کام کا آغاز نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ 65سال سے ملتان میں کوئی نیا ہسپتال نہیں بنایا گیا۔ نشتر ہسپتال کی تعمیر کے موقع پر ملتان ضلع کی آبادی 5لاکھ سے بھی کم تھی، جبکہ اس ہسپتال سے سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں سے بھی مریض آتے ہیں۔ آج 5لاکھ آبادی کے لئے بننے والے ہسپتال پر 5کروڑ سے زائد آبادی کا انحصار ہے، لیکن نہ کوئی نیا ہسپتال بنایا گیا ہے اور نہ اس کی اصل ضرورت کے مطابق اپ گریڈیشن کا عمل ممکن ہو سکا ہے۔ اس پر المیہ یہ کہ 80 بستروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ آبادی میں اضافے کے باعث ملتان میں 400بیڈ کا نیا ہسپتال بنایا جائے گا۔ سات سال ہوگئے پرانا ہسپتال ختم کر دیا گیا، جبکہ نئے ہسپتال کے لئے ابھی تک جگہ کا تعین ہی نہیں ہو سکا۔ پرویز الٰہی کے دور حکومت میں گردوں کے ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کیا گیا، تین سال سے عمارت مکمل ہے،لیکن مشینری آج تک نہیں پہنچ سکی۔ خالی عمارت گڈ گورننس کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ حالیہ سیلاب میں دریائے چناب پر بنائے گئے دونوں پلوں کے بند توڑدیئے گئے ۔ ملتان سے سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ شیرشاہ پل پر یکطرفہ راستہ عارضی طور پر بحال کیا گیا ہے، جبکہ ہیڈ محمد والا پل پر راستہ آج تک بحال نہیں ہو سکا۔
خادم پنجاب گزشتہ چار ماہ میں بیس سے زائد مرتبہ ان علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں، لیکن مسئلہ آج بھی موجود ہے۔ گزشتہ سات سال سے خادم پنجاب اپنے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کی ہر جگہ بات کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ملتان میں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا،بلکہ جو پہلے سے چل رہے تھے، وہ بھی اپنی مدت مکمل ہونے کے باوجود ادھورے ہیں۔ پورے ملک میں نئی موٹرویز کا بڑا شور ہے، لیکن ملتان سے فیصل آباد موٹروے چار سال میں 25فیصد بھی تعمیر نہیں ہو سکی۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب لاہور اور دوسرے علاقوں میں بڑے بڑے منصوبے چند مہینوں میں مکمل کئے جا سکتے ہیں تو ملتان اور جنوبی پنجاب کے منصوبے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ادھورے کیوں رہ جاتے ہیں۔۔۔تختِ لاہور کے نام سے پروپیگنڈہ یقیناًزہریلا اور نفرتیں پھیلانے کا کام ہے، لیکن محروم عوام کو محروم رکھنا بھی یقیناًسنگین جرم ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی بدقسمتی کہ گزشتہ 65سال سے افسر شاہی، سردار اور مخدوم مل کر اس علاقے کو ترقی سے محروم کرتے رہے اور آج حکمران خادم بن کر عوام کو ان کے جائز حق سے محروم کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اپنا نام خادم رکھیں یا میاں صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ سازشی پروپیگنڈے کا جواب عمل سے دینا ہوگا۔ آپ عوام پر نہ احسان کریں اور نہ ان کا حق خیرات سمجھ کر دیں۔ آپ کے عمل سے ہی اس بات کا فیصلہ ہو سکے گا کہ تخت لاہور کا نعرہ حقیقت ہے یا فسانہ۔