جناب رانا فضل الرحمن میرے استاد
وہ ایک بڑے جاگیردار خاندان کا چشم و چراغ تھا، مگر غریب عوام سے محبت اس کا سرمایہ حیات رہا۔ وہ غریبوں کے حقوق کے لئے دن رات سرگرم عمل رہتا۔ بے نوا قیدیوں اور بے آسرا سائلوں کے لئے اس کی وکالت کی کوئی فیس نہ تھی۔
بے عدل ججوں اور قانون سے انحراف کرنے والے عدلیہ کے اہلکاروں کے لئے وہ ننگی تلوار تھا۔ مستحق طلبہ و طالبات کے لئے وہ شجر سایہ دار تھا۔ وہ زندگی کے حقائق سے بخوبی واقف تھا۔
انسانی عقل اور نفسیات کے تمام رموز سے آشنا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے جانشینوں کا بہترین استاد تھا، جمہوریت کی خاطر جس نے صدر ضیاء الحق کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
نفاذ نظام مصطفی کے لئے جس نے بھٹو حکومت کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر اس کے عزم اور ارادے میں کوئی فرق نہ آیا۔’’اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں،کامیابی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی پرانی اور کہنہ سوچ ختم کرکے نئی سوچ اختیار کرنا ہوگی، کامیاب ہونے کے لئے آپ کو کچھ عادتیں چھوڑنا ہوں گی اور کچھ عادات اپنانا ہوں گی کامیابی دراصل اچھی عادات کا نتیجہ ہوتی ہے، جبکہ ناکامی غلط عادات کا نتیجہ ہے۔
یعنی عادات یا تو بہترین خدمت گار ہوتی ہے یا بد ترین آقا‘‘۔۔۔نفسیات کے علم کے مطابق آپ زندگی میں کچھ بھی کرتے ہیں، اس میں زیادہ تر کا انحصار آپ کی عادتوں پر ہے، اس طرح ہمارا 90فیصد رویہ عادات پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ کامیاب لوگ اچھی عادات رکھتے ہیں، جبکہ ناکام لوگ بری عادات کا شکار ہوتے ہیں۔ اچھی عادات اپنانا گوکہ مشکل ہے، مگر اچھی عادات کے ساتھ زندگی گزارنا بہت آسان ہے‘‘۔
یہ تمام اقوال کسی ماہر نفسیات کے نہیں، بلکہ میرے آئیڈیل سیاستدان اور عوام میں معروف اور محبوب قائد رانا فضل الرحمن محمود ایڈووکیٹ مرحوم کے ہیں جو انہوں نے میری زندگی کی ابتداء یعنی جوانی اور لڑکپن میں مجھے سمجھائے تھے اور میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کا ہی نتیجہ ہے کہ آج لوگ نہ صرف محبت کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عوام کے اعتماد و محبت سے آج ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا ایک قابل ذکر ورکر اور ایک وفاقی وزیر بن گیا ہوں۔
رانا فضل الرحمن محمود انتہائی شفیق اور ذہین استاد کی طرح زندگی کے ایک ایک پہلو سے متعلق معلومات دیا کرتے تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ’’زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے کردار کی بنیاد ہمارے تجربات ہیں جو بچپن سے شروع ہوتے ہیں اور ہماری تقریباً 95 فیصد حرکات و کردار خود کار اور غیر شعوری ہوتے ہیں۔
آپ جس طرح کا انسان بننا چاہتے ہیں، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی عادات ہیں، اگر آپ مثالی طور پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی بعض عادات ترک کرنا ہوں گی، مثلاً دیر سے اٹھنا، محنت سے جی چرانا، کام میں بہت لیت و لعل کرنا، جلد فیصلہ نہ کرنا، غیر مستقل مزاج ہونا، زیادہ ٹی وی وغیرہ دیکھنا، کامیابی کے لئے آپ کو ان عادات کی بجائے اچھی عادات اپنانا ہوں گی۔
’’کامیابی کے لئے ایمانداری سب سے بڑی اور اہم بنیاد ہے۔ جو خاندان ترقی کرتے ہیں، ان کی ترقی کی بنیاد اس خاندان کے اکثر لوگوں کی ایمانداری ہے، اس طرح جس ملک کے بزنس مین اور تاجر زیادہ تر ایماندار ہوں گے، وہ ملک دنیا کا کامیاب ترین ملک بن جائے گا‘‘۔
رانا فضل الرحمان محمود اپنے خیالات وتجربات میںآنحضور ﷺ کی تعلیمات اور سنت مبارکہ کو ہرحال میں شامل رکھتے، کیونکہ آپ ایک سچے پکے راسخ العقیدہ عاشق رسولؐ تھے ۔
آپ کہا کرتے تھے کہ ’’ نبی کریمﷺ نے فرمایا سچے اور ایماندار تاجر کو آخرت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی رفاقت نصیب ہو گی۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ چار خصلتیں جس انسان میں ہوں گی، وہ پکا منافق ہے۔ ان میں ایک خیانت ہے۔
ایمانداری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کبھی اپنے حصے سے زیادہ نہ لیں اور کسی طرح بھی اس چیز یا مرتبہ کو قبول نہ کریں، جس پر آپ نے محنت نہیں کی۔ بددیانتی کی بہت سی صورتیں ہیں، مثلاً کم تولنا کم مانپنا اچھی چیز کہہ کر خراب وغیرہ دینا بددیانتی ہے، کبھی چھپی نہیں رہتی، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت‘‘۔۔۔ حضور اکرمﷺکا فرمان ہے کہ جھوٹ برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور برائیاں جہنم تک لے جا تی ہیں۔
’’دنیاوی زندگی میں کامیابی کے لئے عاجزی ایک بنیادی وصف ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو علم ہو آپ کیا کچھ نہیں کرسکتے، مگر اس کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر آپ کو علم ہو کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں تو آپ مغرور ہو جاتے ہیں اور لوگوں کواپنے سے کم تر سمجھتے ہیں، مگرمغرور فرد اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، ویسے بھی غرور سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
جب ہم اپنی حدود اور خامیوں سے آگاہ نہ ہوں تو ان کے برے نتائج کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں، ہماری ترقی رک جاتی ہے، جب کوئی ہماری تعریف کرے تو اس کا کریڈٹ ہم دوسروں کو دیں، اس کا کریڈیٹ ہم اپنے والدین، اساتذہ،کوچ، ساتھیوں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو دے سکتے ہیں، تاہم آپ کریڈٹ دینے میں مخلص ہوں۔ اس طرح صبر کرنا بھی کامیاب لوگوں کی خوبی ہے۔ جب ہم صبر کرتے ہیں تو چیز تیزی سے ہماری طرف آجاتی ہے۔
صبر کرنے سے مراد یہ نہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پر اُمید ہوکر انتظار کرتے رہیں۔ انتظار بامقصد ہو۔ یہ معلومات اکٹھی کرنے اور مناسب منصوبہ بندی پر مشتمل ہو: اگر آپ صبر نہیں کریں گے اور بے صبری کریں گے تو آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا ‘‘۔
اسی طرح شکر گزاری بھی کامیابی کا ایک بہت بڑا سبب ہے، رانا فضل الرحمن محمود ایڈووکیٹ کا قول ہے کہ ’’شکر گزاری اچھائیوں کی ماں ہے‘‘۔۔۔تمام کامیاب لوگ نہ صرف عام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ان کو دی ہوتی ہیں ان کے لئے وہ بہت زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا بھی کامیابی اور اطمینان قلب کا پیش خیمہ ہے ۔عام زندگی میں دوسروں پر بھروسہ کرنا بھی کامیابی کی دلیل ہے۔ اسی طرح بھروسہ کرنے والے کا نقصان بھی کم ہوتا ہے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے لوگوں کا نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لئے کامیاب بننے کے لئے آپ دوسروں پر بھروسہ کرنے والے بنیں۔
کامیابی کے لئے خطرہ مول لینا بھی لازم ہے اور بڑی کامیابی رسک لئے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی، آپ اگر بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بہادر بننا ہو گا۔ بہادر بنیں، مگر بے وقوف نہ بنیں ۔ب
ے وقوفی اور بہادر ی میں فرق یہ ہے کہ بہادر ی میں ہم حالات کا اچھی طرح جائزہ لیتے ہیں اور تمام معلومات اکٹھی کرتے ہیں، پھر خوف کے باوجود عملی اقدام اٹھاتے ہیں۔ حماقت میں حالات کا جائزہ نہیں لیتے۔
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے ایک نابغۂ روزگار شخص سے لڑکپن اور جوانی میں سیکھنے کا موقع ملا اور مختلف ملاقاتوں ،تقریبات اور اہم دنو ں پر ان کے خیالات اور احکامات سے آشنائی حاصل ہوتی رہتی تھی۔
ان کے منہ سے نکلی ہوئی اکثر باتیں میں اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیتا تھا اور بعد ازاں جدید سائنسی اور نفسیاتی علوم سے اور اسلامی اور اخلاقی تعلیمات سے ان فرامین کا تقابل کرتا تو ثابت ہوتا کہ ان کی ایک ایک بات زندگی کے رہنما اصولوں سے کم نہیں۔
وہ فرماتے تھے کہ ’’زندگی میں کامیاب لوگ اپنے ہر عمل اور حالات کی ذمہ داری خود قبول کرتے ہیں، جبکہ ناکام لوگ اپنے تمام مسائل مشکلات، ناکامیوں کے لئے حالات، والدین اور حکومت وغیرہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔
رانا فضل الرحمن محمود ایڈووکیٹ مرحوم اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کے اس فرمان پر بھی سختی سے کا ربند تھے کہ’’آپ اپنے لئے جو چیز پسند کرتے ہیں، دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پسند کریں ‘‘۔
آپ فرماتے کہ دنیا میں کوئی بھی فرد اس وقت تک بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا جب تک دوسروں کے لئے وہی چیز نہ سوچے جو اپنے فائدے کے لئے سوچتا ہے۔
کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے فائدے کا بھی سوچیں، بلکہ بہتر یہ ہے کہ آپ دوسروں کے فائدے کا پہلے سوچیں اور اپنے فائدے کو بعد میں رکھیں ۔یقین کریں جب دوسروں کو فائدہ ہو گا آپ کو بھی لازماً فائدہ ہو گا ۔اگر آپ دوسروں کو فائدہ دیں گے تو آپ عظیم کامیابیاں حاصل کر یں گے :
شام خزاں کی صبح بہاراں بنا دیا
ترتیب زیست بن گئیں تعزیریں عشق کی