کچھ رحم عوام پر بھی
آج کل بجلی کمپنیاں صارفین کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کے نام پر عذاب ڈھائے ہوئے ہیں، اگر کسی صارف کا موجودہ بل تین سو روپے ہے تو اس میں 2 ہزار روپے سے زائد فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لگ کر آتے ہوئے ہیں، یہ سیدھی سادی نوسر بازی ہے جس کا صارف شکار ہو رہے ہیں، مگر کوئی داد فریاد سننے کو تیار نہیں میٹر ریڈنگ تو وہ اپنے میٹر پر دیکھ سکتے ہیں، مگر ایف پی اے کس حساب سے لگ رہا ہے، انہیں اس کی رتی بھر سمجھ نہیں آتی۔ سوشل میڈیا پر لوگ دہائی دے رہے ہیں۔ پرنٹ و الیکٹرک میڈیا پر بل جلا رہے ہیں، لیکن ایف پی اے کا عذاب ہے کہ ٹل نہیں رہا۔ اربوں روپے کی یہ اوور بلنگ کیسے ہو رہی ہے، کہاں جا رہی ہے، اس میں بجلی کمپنیوں کے لائن لاسز کس طرح پورے کئے جا رہے ہیں اور بجلی چوری کے نقصان کو کس مہارت سے صارفین کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے؟ کوئی اس بارے میں سوچنے اور دیکھنے کو تیار نہیں۔ حکومت کو بڑے بزنس مینوں اور سرکاری افسروں کی تو فکر تھی، سو ان کے لئے تو راتوں رات نیب کے قوانین میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا، لیکن یہ بے چارے عوام، جن کی اہمیت سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کچھ نہیں، دہائی دیتے ہیں، تو کوئی ان کی طرف منہ پھیر کر دیکھتا تک نہیں۔ آج وہ سردیوں میں بھی گرمیوں جیسا زیادہ بل دینے پر مجبور ہیں، بلکہ بعض کے بل تو گرمیوں سے بھی زیادہ آرہے ہیں۔ یہ مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہے، اور یہ سب کچھ وہ حکومت کر رہی ہے جس کا صبح و شام تکیہ کلام یہی ہے کہ جانے والے عوام کو لوٹ کر چلے گئے، ہم ان کے لئے فرشتہ بن کر آئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے اس بیانیہ کا کہ 2020ء انتخابات کا سال ہے، یہ جواب دیا ہے کہ 2020ء خوشحالی و ترقی کا سال ہے۔ کیسے ترقی و خوشحالی کا سال ہے؟ وہ یہ بات نہیں بتا رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اپوزیشن یہ نہیں بتا رہی کہ 2020ء انتخابات کا سال کیسے ہے؟ فی الوقت تو عوام کو کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی، گیس نایاب ہے، بجلی کے بل استعمال نہ ہونے کے باوجود ہوشربا آ رہے ہیں اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے،ا ٓخر ایسا کیا ہوگا کہ کیلنڈر بدلتے ہی حالات بھی بدل جائیں گے۔ آخر وزیراعظم کون سی حکمت عملی استعمال کریں گے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ابھی تو عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوانے کے ہتھکنڈے ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ خسارہ آخر کب پورا ہوگا؟ اگر ساری سردیاں صارفین پر ایف پی اے سرچارج کا کلہاڑا ہی چلتا رہا تو گرمیوں میں پھر بھاری بلوں کا عذاب شروع ہو جائے گا، ریلیف کب اور کیسے ملے گا؟ کوئی ہے جو اس کا جواب دے سکے۔ اگر تو حکومت اس بات کی آس لگائے بیٹھی ہے کہ کاروباری طبقے کو نیب کے خوف سے آزاد کر کے خوشحالی آ جائے گی تو اس کی سادگی پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ کاروباری طبقہ وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مطالبہ کرتا رہا ہے کہ اس سے ٹیکس نہ مانگا جائے، شناختی کارڈ کی شرط نہ رکھی جائے، ایف بی آر کے اختیارات ختم کئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کا کام تو صرف سہولتیں مانگنا ہے، اب اسے ایک اور سہولت دے دی گئی ہے، احتساب سے ہی مبرا قرار دے دیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ دودھ کی کتنی نہریں بہاتا ہے، کتنے خزانے ملک پر لٹاتا ہے؟ حکومتی خزانے میں پیسہ نہیں آتا اور بالا بالا کہیں اور چلا جاتا ہے تو کیسی خوشحالی، کیسی ترقی؟ اگر گھوم پھر کر ملک چلانے کے لئے پھر عوام کی جیبیں ہی صاف کرنی ہیں، انہی پر بالواسطہ ٹیکسوں کا عذاب ڈھانا ہے تو مراعات یافتہ طبقے کو مزید نوازنے کا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ جو طبقہ نیب کا خوف ہونے کے باوجود بد عنوانی میں ملوث تھا، وہ خوف ختم ہونے کے بعد کیسے نیک و پارسا بن جائے گا؟۔ وہ قانون کی مزید دھجیاں اُڑائے گا یا اس کے سامنے سر نگوں کر دے گا۔ سوائے عام آدمی کے اس ملک میں اب وہ کون رہ گیا ہے جس پر قانون نافذ ہو سکتا ہے؟ ہر شعبے میں طاقتور مافیاز وجود میں آ چکے ہیں، جو اپنے فیصلے آپ کرتے ہیں، قانون ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے، حتیٰ کہ سرکاری افسر بھی، جن کا کام ریاست کی بہتری میں کردار ادا کرنا ہوتا ہے، یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں کہ جب تک نیب کو بے اختیار نہیں کیا جاتا، وہ کام نہیں کریں گے۔ گویا وہ مادر پدر آزادی مانگتے ہیں اور ریاست ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
کہنے کوتو وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ 2023ء تک یہی باور کراتے رہیں گے کہ انہیں حکومت سنبھالنے پر کیسی معیشت ملی؟ وہ بے شک یہ شوق پورا کریں، مگر اس کو بنیاد بنا کر وہ عوام کو طفل تسلیاں تو نہ دیں۔بُری معیشت ملی تھی تو اسے بہتر کرنا بھی انہی کا کام ہے۔ ابھی تو حالات نیچے ہی جا رہے ہیں، اڑان کب بھریں گے، اس کی طرف سب کی نظریں ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی یاد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے غریبوں کی حالت کا جو نقشہ بیان کیا، وہ غلط نہیں، اس کا جواب دہ نہیں جو حکومتی وزراء نے دیا کہ وہ پرچی سے چیئرمین بنے ہیں۔ چیئرمین وہ جیسے بھی بنے ہیں، ان کی باتوں میں وزن ہے۔ عوام کی حالت بدلنے کے ضمن میں حکومت بالکل ناکام نظر آتی ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری 2020ء میں انتخابات ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان 2023ء تک صرف اس تذکرے کے سہارے حکومت نہیں کر سکتے کہ انہیں بہت بری حالت میں حکومت ملی تھی۔ ان کی معاشی ٹیم کامیابی کے دعوے تو کر رہی ہے، لیکن عملاً عوام تک ایک بھی اچھی خبر نہیں پہنچا سکی۔ الٹا مختلف حربوں سے اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکلوائے جا رہے ہیں۔ آئے روز بجلی کی قیمتیں بڑھا کر پچھلے مہینوں سے ان کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ ایسا تو کبھی دیکھا نہ سنا، کیا اسی کو ترقی کا نام دیا جا رہا ہے۔ کیا خوشحالی لانے کا یہی طریقہ دریافت کیا گیا ہے؟اب 2020ء بھی آنے والا ہے۔ مقابلہ بھی شروع ہونے والا ہے کہ یہ انتخابات کا سال ہے یا خوشحالی کا؟ اپوزیشن کے پاس اس برس کھونے کو کچھ نہیں، البتہ حکومت نے اگر وہی طفل تسلیاں جاری رکھیں، جو اب تک دیتی آئی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کا جن بے قابو رہا تو شاید اس کی کشتی بیچ منجدھار کے ڈوب جائے۔ ڈیڑھ سال بعد بھی اگر حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ عوام کی جیبیں ہی نہیں پیٹ بھی خالی ہیں تو حکمرانوں کے لئے دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے۔