عورت اور ہمارا بے رحم معاشرہ

عورت اور ہمارا بے رحم معاشرہ
عورت اور ہمارا بے رحم معاشرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مردوں کے غلبہ سے بھرپور اپنے اس خوشبودار معاشرے میں عورت کا تصور ہمیشہ سے کافی بیچارا سا رہا ہے۔ہمارے ناولوں،کتابوں،ڈراموں اور فلموں میں عورت کو بے بس ہی دکھایا جاتا ہے۔ ہم اس بے چارگی کو دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے اگر ہمیں کہیں مضبوط عورت دکھائی دے ہم اسے دِل ودماغ سے قبول ہی نہیں کرپاتے۔اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں۔ ہر دور میں محکومی اور مظلومی عورت کا مقدر رہی ہے۔ وہ اذیت اور ذلت کا بوجھ اٹھائے تاریکیوں کے جنگلوں میں بھٹکتی رہی ہے۔ نور اسلام سے قبل کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیں شوہر کی وفات پر خود سوزی پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح بحیثیت انسان عورت کو اس کے جائز مقام اور حق سے محروم رکھا گیا۔


جب اسلام کا مہرتاباں طلوع ہوا تو عورت کی بے نور زندگی عفو و کرم،حسن سلوک سے منور ہو گئی۔بلاشبہ اسلام وہ واحد دین فطرت ہے،جو عورت کو اس کے تمام حقوق سے نوازتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے اس جدید دور میں ہم زمانہ جاہلیت سے بھی بدتر ہو چکے۔
آج کی عورت جتنی مظلوم ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی خاص طور پر ایسی عورتیں جن کے خاوند فوت ہو چکے یا جو طلاق یافتہ ہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان، مگر آزادی کے 74سال بعد بھی ہم پر ہندو معاشرے کی چھاپ اترنے کا نام نہیں لے رہی۔


ہمارے دوہرے روئیے اور منافقانہ طرز عمل نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کررکھا ہے۔ اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ یا بھائی کے گھر رہنا چاہتی ہے تو رشتے دار، پڑوسی اور دوسرے لوگ اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اسے طعنے دیتے ہیں کہ واپس گھر آ کر بیٹھ گئی ہے والدین اور بھائی پر بوجھ بن گئی ہے اس پر جلتی پر تیل کاکام بھائی کی بیوی،یعنی بھابی کرتی ہے جو خود عورت ہوتے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدانخواستہ یہ وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے وہ یہ کہتے ذرا شرم محسوس نہیں کرتی۔ ”یہ منحوس، ڈائن اپنے بندے کو کھا گئی اسے چاہئے یہ خود کمائے“ اس قسم کے لغویات کا سامنا اس قسمت کی ماری بیوہ یا طلاق یافتہ کو سننا ہی پڑتی ہیں اور اگر اس بیچاری کے بچے ہوں تو ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور بھابیاں یہ کہتے نہیں تھکتیں پہلے ہمارے بچوں اور گھر کا خرچہ کیا کم تھا جو یہ لوگ آ کر ہمارے سر پر سوار ہو گئے۔ اس کو چاہئے یہ اپنا اور اپنے بچوں کا خرچہ اٹھانے کے لئے نوکری کرے۔


آخر کار روز روز کے ان طعنوں سے تنگ آ کر وہ عورت نوکری کرنے پر مجبور ہو ہی جاتی ہے۔اس اکیلی عورت کے لئے جانوروں کے اس ریوڑ میں خراب نظروں اور جھلسا دینے والے جملوں کو سہنا کوئی آسان کام نہیں۔ الغرض گھر سے باہر نکلنے پر اس بیوہ یا طلاق یافتہ اکیلی عورت کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری صورت میں اس بیوہ عورت سے جینے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے جب وہ دوسرا نکاح کرتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور اگر طلاق یافتہ عورت دوسرا نکاح کرے تو اس کے کردار پر ایسا کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ 
اگر بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی نہ کرے وہ اپنے بچوں کو لے کر علیحدہ گھر میں رہے تو پھر بھی معاشی مشکلات کا مقابلہ اپنی جگہ اس کے رشتہ دار اور محلے دار مدد کرنے کے بجائے اس پر تنقید کے نشتر چلانے کے ساتھ اس کی ایسی کڑی نگرانی کرتے ہیں کہ نہ ہی پوچھئے۔


المیہ تو یہ ہے ہماری کچہریاں طلاق، خلع، بچوں کی حوالگی کے کیسز سے بھری پڑی ہیں  آج کل ہر ٹی وی چینل کے ڈراموں میں طلاق سے بات شروع ہو کر طلاق پر ختم ہو رہی،جو ایسا فعل  ہے جس سے اللہ کا عرش ہلتا ہے اور اسلام میں جسے سب سے ناپسندیدہ عمل  قرار دیا گیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر طلاق دینے کے اس ٹاپ ٹرینڈ کا چیک اینڈ بیلنس کون کرے گا؟ یہ کس کی ذمہ داری؟ ہم روز بروز اس گہری کھائی میں گرتے جا رہے۔ ہے کوئی سننے والا؟ بچیوں کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی، مگر ان کے اچھے رشتہ نہ آنے کی وجہ سے وہ گھر بیٹھی ہیں۔ ہے کوئی اس پر بات کرنے والا؟ہر جمعہ پر مولوی صاحب دُعا مانگتے ہیں یااللہ جن والدین کی بچیاں گھر پر بیٹھی ہیں ان کے اچھے رشتے بھیج دیجئے۔


آخر ایسا کیوں تواتر سے ہورہا ہے؟ کم سن بچے بچیوں اور بے سہارا اکیلی عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ایسی مکروہ اور قبیح حرکت کرنے والے یہ بھول گئے کہ ان کو بھی کسی عورت نے 9ماہ پیٹ میں رکھ کر جنم دیا۔ شاید اس میں قصور وار ہم سب جو اللہ کی آخری کتاب کو صرف الماریوں کی زینت بنا چکے اس کا ترجمہ پڑھنے کا ہمیں کسی نے نہ کبھی بتایا نہ ہی ہم نے خود زحمت کی کاش ہم اس معاشرے میں دوسرے نکاح کو پروموٹ کرتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

مزید :

رائے -کالم -