تسبیح کی ڈور ٹوٹنے نہ پائے

تسبیح کی ڈور ٹوٹنے نہ پائے
تسبیح کی ڈور ٹوٹنے نہ پائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تسبیح کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ضروری ہے۔ ہمارے کئی دوست اکثر سر پر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں۔ ہم میں سے جب کوئی عمرہ یا حج پر جائے تو واپسی پر اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کے لیے آب زم زم کے ساتھ جو تحفے لاتے ہیں۔ ان میں جا نماز اور تسبیح ہوتی ہے۔  وہ تسبیحیاں بنتی تو چین میں ہیں۔ لیکن ہمارے لیے مقدس ہوتی ہیں کیونکہ وہ بھی پاک زمین سے ہو کر ہم تک پہنچتی ہیں۔ پچھلے دنوں ہم اپنے ایک رشتہ دار کے گھر گئے تو ان کے صحن میں کچھ پودے تھے اچانک میری نظر ایک ایسے پودے پر پڑی جو میرے لئے نیا تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو اس پر موتی نما دانے لگے ہوئے تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ تسبیح کا پودا ہے۔ پھر اس گھر کے مکینوں نے ہمیں تسبیحیوں کا ایک پورا گچھا تھماتے ہوئے کہا کہ یہ سب ہم نے اپنے اس پودے سے دانے لیکر بنائی ہیں۔ اس پودے اور تسبیح کو دیکھ کر دل سے بے اختیار اللہ کی تسبیح نکلی۔ اور جب اس تسبیح کو لوگ حکمرانوں کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں تو پھر نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی ہاتھ میں تسبیح لے لیتے ہیں۔ 


لیکن یہ خاکسار سوچتا ہے کہ یہ تسبیح کیا ہوتی ہے۔ اس کے معانی کیا ہیں۔ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟کیا ہم واقعی اللہ کی تسبیح کرتے ہیں؟ عام فہم کے مطابق تسبیح کے معانی پاکیزگی یعنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کا ورد ہے۔ لیکن کیا نعوذبااللہ اللہ ہماری تسبیح کا محتاج ہے؟ وہ ذات تو ہر طرح کے شک و شبہات  سے بہت بالاتر اور رحمن ہے۔ اگر ہم اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو پھر ہمیں تسلیم بھی ہے کہ وہ پاک ذات ہے اور ہمیں اسی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی، اگر ہم اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلتے اور اس کے احکامات کی عدولی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تو پھر ہاتھوں میں تسبیح پھیرنا ایسے ہی ہے۔ جیسے پانی میں سے مکھن کی تلاش۔


 ہمیں بطور مسلمان پوری امت کو ایک تسبیح کی مانند ایک ڈور کے اندر جڑے رہنا چاہیے تھا۔ اور بطور پاکستانی بھی تمام افراد کو ایک ڈور کے ساتھ جڑ کر اس ڈور کو مضبوط کرنا چاہیے تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسلام ایک ڈور ی ہے اور تمام اسلامی ممالک اس میں جڑے ہوئے دانے ہیں۔ اسی طرح پاکستان ایک ڈور ہے اور پاکستان کے اندر رہنے والا ہر فرد بلاتحصیص رنگ  نسل، علاقہ اور مذہب اس ڈور کا دانا ہے۔ اور اس ڈور کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھے گا۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یا تو ہمارا تسبیح پر ایمان نہیں یا پھر ہم اس ڈور سے نکل کر مٹی میں بکھر چکے ہیں۔ اب کون ہے جو ہمیں اس گرد سے نکال کر ایک بار پھر اسی ڈور کے ساتھ جوڑ دے؟ کیا ہم تسبیح سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر آو ایک بار تسبیح کو غور سے دیکھیں اور تسبیح کو اس کی روح کے مطابق کریں۔ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے مالک کے احکامات کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں اور پھر اس کے دین اور پاکستان کے تقدس کی ڈوری میں خود کو دوبارہ سے پرو کر اس تسبیح کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیں۔

اپنی اپنی بولیوں سے نکل کر اپنی قومی زبان کو اپنائیں۔ اور ملکی بیانیہ ایک کر دیں۔ زندہ انسانوں کے بیچ اختلاف رائے کا ہونا زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن یہ اختلاف وطن اور امہ کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے ناکہ اپنی ذاتی تسکیں کے لیے۔ اگر ہم موجودہ دگرگوں حالات سے نکلنا چاہتے ہیں۔ تو اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ایک بار پھر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر ایک تسبیح کی مانند ہو جائیں۔ بلوچی رہیں نہ پنجابی   سندھی کہلائیں نہ پٹھان ہم ایک قوم بن کر اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ جب ہم تسبیح کے دانوں کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوں گے تو پھر ایک دوسرے کے دکھ سکھ، اس کے رہن سہن اور اس کی سوچ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی آسانی سے کر سکیں گے۔ پھر کسی دشمن کو ہماری صفوں میں گھسنے کا موقع ملے گا نہ کوئی ہمیں نقصان پہنچا سکے گا۔ 

مزید :

رائے -کالم -