پنجاب پولیس کے روشن ستارے
اچھے اور برے لوگ ہر شعبہ میں ہوتے ہیں مگر اچھے لوگ ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ یاد تو خیر برے لوگ بھی آتے ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ دنیا والے اچھے لوگوں کو اچھے لفظوں میں اور برے لوگوں کو انکے برے کاموں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پولیس کے شعبہ میں اکثریت برے اور بد اخلاق لوگوں کی ہے جو ظلم و زیادتی اور کرپشن کو ہی اپنا سب کچھ مانتے ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پولیس والوں کی نہ دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پولیس کو عوام دوست نہیں بنایا جا سکا۔ایک کہاوت مشہور ہے تھانے کے اندر جانا تو بہت دور کی بات ہے، شریف آدمی تو باہر سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔جہاں پولیس کے شعبے سے وابستہ کالی بھیڑوں کا برے الفاظ میں ذکر ہوتا ہے وہاں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے محکمے کا نہ صرف بہترین تعارف بنے ہوئے ہیں بلکہ عوام ایسے پولیس آفیسر کو سیلیوٹ کے ساتھ خراج تحسین سے اکثر نوازتے رہتے ہیں۔اچھے اور محنتی پولیس آفیسر کی ترقی اور ایمانداری سے کام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کا سیاسی کلچر ہے جو ہر ادارے میں اپنا رول پلے کر رہا ہے۔اسے پنجاب اور لا ہور کی خوش قسمتی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں حکمرانوں کی جانب سے پہلی دفعہ ایسے افسران کی ٹیم تشکیل دے کر تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے،جنہوں نے اپنی پوری سروس کے دوران غیر سیاسی آفیسرز کے طور پر شہرت پائی ہے۔یہ آفیسرز تگڑے کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایماندار، بہادر، دیانت دار اور غیر سیاسی پولیس آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ ایسے پولیس آفیسر ہیں جن پر آج تک کرپشن کا الزام نہیں لگا اور نہ ہی کبھی ان کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی ایجنڈا سامنے آیا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں، پولسینگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ان افسران کو پوسٹنگ کے حوالے سے کبھی فرق نہیں پڑا کہ انھیں کہاں اور کیوں تعینات کیا گیا،آئیے جانتے ہیں یہ ہیں کون،آئی جی پولیس راؤ سردار علی خان،لاہور پولیس کے سربراہ فیاض احمد دیو،سپیشل برانچ کے سربراہ ”بی اے ناصر‘آر پی او گوجرانوالہ عمران احمر،آرپی او روالپنڈی اشفاق احمد خان،آرپی او فیصل آباد عمران محمود،آر پی اوسرگودھا فیصل رانا،آر پی اوساہیوال ڈاکٹر معین مسعود،آر پی اوڈیرہ غازی خان وقاص نزیر،ڈی آئی جی آپریشن لاہور ڈاکٹر عابد راجہ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہورشہزادہ سلطان،ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب شارق جمال،سی پی او فیصل آباد مبشر میکن ان افسران میں شامل ہیں جو سفارش پر یقین نہیں رکھتے اورجائز کام کرنے میں تاخیر نہیں کرتے،قابلیت، ایمانداری اور لیڈر شپ کی خوبیوں کی وجہ سے تعیناتی ان کی ہمیشہ منتظر رہی ہے۔کرپشن کے سخت خلاف ہیں،ادارے کی گڈ گورننس کے حوالے سے جتنی شہرت رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشہور کرائم فائٹر پولیس آفیسر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ویسے توپاکستان میں قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے موجود ہیں جن میں خفیہ ادارے اور فوج بھی شامل ہیں مگر پولیس، جو کہ ریاست کی سب سے بڑی نمائندہ ہے سب سے زیادہ ریاستی عدم توجہی کا شکار ہے، تاہم وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب نے آئی جی پولیس راؤ سردار علی خان کے ساتھ ایسی ٹیم تشکیل دے کر پولیس کلچر کی تبدیلی کی جانب بھرپور قدم اٹھایا ہے لیکن اس سفر کو منزل تک پہنچانے کے لئے حکومتی سطح پر پولیس کے دیگر مسائل کو حل کرنابہت ضروری ہے۔ اگر حکومت پولیس فنڈز میں اضافے سمیت محکمے کے تمام اختیارات آئی جی کے حوالے کر دے تو یقینا بہت جلد پنجاب میں پولیس اور تھانہ کلچر مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔لیکن پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پر تو ڈی پی او کو ایس ایچ او لگانے کے لئے ایوان وزیر اعلی کے فون پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ جس صوبے میں ایس ایچ او سے لے کر آر پی او تک کی سیاسی بنیادوں پر سفارش کی بنیاد پر تعیناتی کی جاتی ہے وہاں پر آئی جی پولیس سے امن و امان کی بہتر توقع کرنا یا انہیں پولیس کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک زیادتی سے کم نہیں ہوگا۔یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ صوبے کا سب سے بڑا شہر لاہور جہاں امن و امان کی صورتحال ایک چیلنج بنی ہو ئی تھی اب حالات دن بدن ٹھیک ہوتے جارہے ہیں،جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کنٹرول ہونا شروع ہو گئی ہے،فری رجسٹریشن کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے،موٹر سائیکل چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث متعددگینگ گرفتار ہونے سے وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے،لاہور پولیس کے سربراہ فیاض احمد دیوجو عزم لے کر آئے تھے اس میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں،جبکہ پنجاب کے دیگر اضلاع اور ریجن میں بھی پولیس افسران جرائم کی شرح کو کم کرنے میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔