مودی سرکار کا کشمیر کے لئے پلان بی
مودی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو اپنے بھارتی آئین میں تبدیلی کی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارتی یونین میں ضم کر دیا ہے، اس کے ساتھ ہی وہاں سیکیورٹی فورسز کی تعداد 9 لاکھ تک بڑھا کر کر فیو بھی نافذ کر دیا، کمیونی کیشن کے تمام ذرائع مفلوج کر کے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن کر دیاتاکہ کشمیری مسلمانوں کی کسی قسم کی آواز اور مزاحمت کو روکا جائے۔ اس لاک ڈاؤن کو 5 مارچ تک 7 ماہ ہو جائیں گے۔ مودی سرکار نے اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو آئینی اور 9 لاکھ فوج کے ذریعے انتظامی طریقے سے بھی حل کر دیا ہے۔ پوری دُنیا دیکھ رہی ہے اور پاکستان دھائی دے رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے 80 لاکھ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم کر دیا گیاہے۔ تحریرو تقریر تو دور کی بات،آپس میں عمومی رابطوں پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ لوکل پریس پر ہی نہیں،بلکہ بھارتی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کو بھی وہاں جانے کی آزادی نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر 5 اگست کے بعد سے ”لا علمی اور ریاستی جبر“ کی دبیز اور سیاہ چادر تنی ہوئی ہے، وہاں نہ کسی کو جانے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہاں سے کوئی باہر نکل سکتا ہے ……وہاں اگر سب کچھ ٹھیک ہے، آئینی ہے، قانونی ہے تو پھر آزاد پریس کو وہاں جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟مواصلات کے ذرائع پر پابندیاں کیوں ہیں؟انٹرنیٹ سروس کیوں معطل ہے؟کشمیری رہنما پابند سلاسل کیوں ہیں؟حد تو یہ ہے کہ بھارت نواز مسلم کشمیری قیادت پر بھی مکمل پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ……مودی حکومت نے کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کرتے وقت شائد اس قدر مزاحمت کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مودی حکومت نے امریکی صدر ٹرمپ کے فقید المثال استقبال پر 700 ملین روپے خرچ کئے، انہیں سب ہرا ہرا دکھانے کی کاوشیں کیں، لیکن ان کی موجودگی میں بھارتی دارلحکومت میں قتل و غارت گری ہو رہی تھی، مسلمانوں پر قاتلانہ حملے ہو رہے تھے، ہندو بلوائی مسجد کے میناروں پر چڑھ کر وہاں بی جے پی کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی تقریر میں امریکی صدر نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کا ذکر کر دیا، پاکستان کے ساتھ دوستی اور اچھے تعلقات کا بھی ذکر کیا، حتیٰ کہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا بھی ذکر دہرایا۔ اس طرح مودی سرکار سفارتی محاذ پر پاکستان کو شکست دینے میں ناکام ہو گئی اور مسئلہ کشمیر ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آگیا،لیکن مودی سرکار ٹس سے مس ہوتی نظر نہیں آرہی۔ مودی نے اپنے حلقہ انتخاب واراناسی میں 16 فروری کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ انہوں نے کشمیر کے لئے، جو کچھ کیا ہے،اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ، گویا مسئلہ کشمیر ختم شد۔
دوسری طرف ”رائیٹر“ نے کشمیر کے بارے میں اپنی ایک تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مودی سرکار کشمیر میں اپنا پلان بی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں اپریل / مئی میں ایک بزنس کانفرنس کے انعقاد کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے، جس میں اعلیٰ درجے کے 250/ 300 صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو مدعو کیا جائے گا اور انہیں یہاں کشمیر میں سیاحت، تعلیم اور سیمنٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا جائے گا۔ ”رائیٹر“ نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ وادی کی 1300 ایکڑ سے زائد زمین بھی پیش کئے جانے کی منصوبہ بندی ہے تاکہ یہاں مجوزہ شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے غیر ریاستی ہندو آباد کاری کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ کشمیری مسلمانوں کی زمین پر ہندوؤں کو لا بسانے کا مودی سرکار کا یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے، جیسے فلسطینی مسلمانوں کی زمین پر یہودیوں کو بسایا گیا تھا، پھر خطے کی آبادی میں اس طرح تبدیلی کی گئی کہ 70 / 60 سال میں آج فلسطینی اقلیت ہو گئے ہیں اور اب اپنی ہی زمین پر اقلیت بن کر ایک وطن کی تلاش میں مصروف جدوجہد ہیں، جبکہ یہودی آباد کار اسے اپنا اسرائیل قرار دے رہے ہیں۔ یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے رہے ہیں،جبکہ فلسطینی مسلمان در بدر پھر رہے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی میں اسرائیلی فکری و عملی معاونت بھی شامل ہے۔ یہودیوں نے فلسطینی سر زمین پر جس طرح بتدریج قبضہ کیا ہے، انہی خطوط پر مودی سرکار بھی کشمیر کو ہندو ریاست کا اٹوٹ انگ بنانے میں مصروف ہے ……جموں کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مودی سرکار بارے ایک بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ وہ تمام تر مشکلات اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود، اس ایکٹ پر اُلٹے پاؤں پھرنے کے لئے تیار نہیں ہو گی،بلکہ طے شدہ منصوبے کے مطابق، کشمیر کو ہندو ریاست بنانے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا چاہتی ہے۔ سرمایہ کاری کا نفرنس کا مجوزہ انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے بارے میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر خزانہ حسیب دارابو کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کا یہ منصوبہ بہت بڑی بے وقوفی ہے، کیونکہ کشمیر میں جاری حالات ایسے نہیں ہیں کہ سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے لئے امن و امان اور موافق حالات کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، جو سردست کشمیر میں نہیں پائے جاتے۔کشمیر پرمودی سرکار کی گرفت اس قدر کمزور ہے کہ 9 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے یہاں مکمل لاک ڈاؤن کر رکھا ہے، اس لئے یہاں سرمایہ کاری کا منصوبہ حقیقت کا روپ نہیں دھار پائے گا۔
”رائیٹر“ کی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق آنے والے چار سالوں کے دوران مودی سرکاری یہاں کشمیر میں ہندوبستیاں بسانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ہندوؤں کو زمینیں الاٹ کر کے انہیں یہاں کاروباری سہولتیں دے کر بسانے کی کاوشیں کرے گی تاکہ بتدریج آبادی کے تناسب میں ایسی تبدیلیاں لائی جا سکیں، جس سے خطے میں مسلمانوں کی اکثریت تبدیل کئے جائیں اور بالآخر کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا جائے۔ دوسری طرف دیکھیں تو کشمیریوں کی بھارت سرکار کے خلاف نفرت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ 5 اگست سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث کشمیریوں کے اندرآزادی کے لئے ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوا ہے، جس کی پرورش نفرت کر رہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کا آزادی کے لئے جوش و خروش اور مودی سرکار کے لئے نفرت کو سرمایہ کاری جیسے لالی پاپ کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیری مسلمانوں کو صرف 5 اگست کے اقدام کی واپسی کے ذریعے ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے،
سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا، کانگریسی رہنما راہول گاندھی، غلام نبی آزاد اور پی چدم برم جیسے رہنما بھی اس بارے میں متفق ہیں کہ کشمیریوں کا غصہ اور نفرت 5 اگست کے فیصلے کو ختم کئے بغیر ختم نہیں ہو سکے گا۔ بھارت اس وقت سلگ رہا ہے، دنیا کی سب سے بڑی اقلیت (مسلمان) کرب و اذیت میں مبتلا ہیں، غم و غصے کا شکار ہیں، بھارت کے انصاف پسند ہندو، سکھ اور دیگر اقلیتیں بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے رویوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔مودی سرکار اپنی ساری عیاری و مکاری کے باوجود عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی یقینا ایک نیا موڑ لینے کے لئے تیار ہو چکی ہے۔ جبر اور ظلم کے سائے میں پَل کر جوان ہونے والی کشمیری مسلمانوں کی نوجوان نسل ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ بی جے پی حکومت کے زیر سایہ ہندو توا کا فروغ اقلیتوں کے احتجاج کے لئے مہمیز کا کام کر رہا ہے، ہندوستان کی دیگر اقلیتیں بھی گھٹن کا شکار ہو کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑی نظر آنے لگی ہیں۔ تاریخ ایک نیا موڑ مڑنے والی ہے…… سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟