ویل ڈن چودھری شجاعت حسین
پاکستان کے بڑے مسائل کاجب بھی تذکرہ ہوگا تویقینی طور پر ان مسائل میںبیڈ گورننس کو بھی ضرورشامل کیا جائے گا،کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کو بہت کم ایسی قیادت دیکھنے کو ملی ہے، جس نے عوام کے مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اُن کے حل کے لئے مخلصانہ کوششیں کی ہوں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست خدمت کی بجائے ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگئی، جس میں ایک بار چند کروڑ روپے لگا کر پانچ سال تک بے پناہ منافع کمایا جا سکتا ہے، لیکن آج بھی کچھ ایسے سیاستدان موجود ہیں، جنہوں نے نہ صرف صحیح معنوں میں عوامی خدمت کو اپنا مشن بنا رکھا ہے، بلکہ ملک میں جب بھی کسی قسم کے تنازع نے جنم لیا، انہوں نے آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے پورے خلوص اور دیانتداری سے کوشش کی۔ چودھری شجاعت حسین بھی ایک ایسے ہی دانا اور زیرک سیاستدان ہیں اور اس کا ایک ثبوت انہوں نے حال ہی میںاُس وقت دیا جب ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ نے پورے ملک کو ایک عجیب صورت حال میں مبتلا کردیا تھا ۔
اس انتہائی خطرناک صورت حال میں بہت سی قیاس آرائیاں جنم لے رہی تھیں۔ کسی کو فوجی بوٹوں کی آوازیں آرہی تھیں تو کوئی ٹیکنوکریٹس کی حکومت آتی دیکھ رہاتھا، کوئی پارلیمنٹ پر قبضے کی پیشگوئیاں کررہاتھا تو کوئی اس صورت حال کے تناظر میں لال مسجد طرز کے ایک اورآپریشن کا خطرہ محسوس کررہاتھا، خصوصاََ اس وقت توصورت حال اچانک بہت ہی ڈرامائی صورت اختیارکرگئی، جب دھرنے کے دوران عین اس وقت جب ڈاکٹر طاہر القادری اتنے بڑے مجمعے کے سامنے عوام کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے حکومت کو للکار رہے تھے، سپریم کورٹ نے رینٹل پاورپروجیکٹ کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ اس کے بعد تو حکومت گھنٹوں کی مہمان قراردی جانے لگی ، حتیٰ کہ بھارتی میڈیا نے تو صدر آصف علی زرداری کے فیملی کے ساتھ دبئی فرار کے لئے ان کے طیارے میں فیول بھرنے کی خبر بھی نشر کردی تھی۔
دوسری جانب ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے منظم ترین دھرنے کے ساتھ سخت ترین سردی میں ڈی چوک پر ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے، جبکہ شرکاءمیں موجود خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی حکومت پر دباو¿ بڑھا رہی تھی۔ اسی دوران دھرنے پرآپریشن کی خبریں منظرعام پر آئیں، جس پر چودھری شجاعت حسین نے فوراََ صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ اسلام آباد میں ایک بار پھر لال مسجد جیسا واقعہ دہرانے کی تیاری کی جارہی ہے، اس کو روکا جائے اورمذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ اس کے بعد ہی حکومت نے لانگ مارچ کے خلاف کارروائی نہ کرنے اورمسئلہ مذاکرات سے حل کرنے کا فیصلہ کیا ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ مذاکرات کے لئے جائے کون ؟.... 17جنوری کو پرائم منسٹر ہاو¿س میں طویل مشاورت کے بعدچودھری شجاعت حسین کواس کے لئے بہترین انتخاب قرار دیا گیا، جس پر چودھری شجاعت حسین تین شرائط کے ساتھ اس مشن پر جانے کے لئے تیارہوئے.... (1)مذاکرات میں اکیلا نہیں اتحادی جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک ہوں گے....(2)مذاکرات کے دوران جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ صدراوروزیراعظم سمیت سب کو قبول ہوگا....(3)مذاکرات میں غیر ضروری مداخلت کے ذریعے ڈیڈلاک پیدا نہیں کیا جائے گا ۔
اس اصولی موقف کو سب نے تسلیم کیا ،اس کے بعد سید مشاہدحسین نے ڈاکٹر طاہر القادری سے رابطہ کرکے انہیں مذاکرات کے لئے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ صرف وزیراعظم سے مذاکرات کریں گے، ورنہ نہیں.... اس پر سید مشاہد حسین نے انہیں کہا کہ ہم جس معتبر شخصیت کی قیادت میں آئیں گے، وہ یقیناََ آپ کو قبول ہوگی، یعنی چودھری شجاعت حسین کا نام سن کرڈاکٹر طاہرالقادری انہیں قابل اعتماد قراردے کرفوراََراضی ہوگئے۔ اس کے بعدچودھری شجاعت حسین کی قیادت میں دس رکنی حکومتی وفد ڈی چوک پہنچا اورکامیاب مذاکرات اور معاہدے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری دھرنا ختم کرنے پر رضامند ہوگئے، جس کا سہرا بیشک چودھری شجاعت حسین کی دانشمندانہ سیاست کوجاتا ہے، جنہوں نے بروقت حرکت میں آکراس سارے معاملے کو سنبھالااور تمام خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں ۔چودھری شجاعت حسین کے اس کردارپر پوری قوم کے سامنے اُن کا مصالحانہ کردار ایک بار واضح ہوگیا ہے۔
بیشک آج پاکستان جن حالات سے گزر رہاہے، ایسے وقت میں چودھری شجاعت حسین جیسی ہی سیاسی قیادت کی پاکستان کو ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے اس دھرنے کے تناظر میں تین اور باتیں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں، جن میں سے ایک یہ کہ بلاشبہ ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ دھرنا اور لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا، منظم ترین اور پُرامن احتجاج تھا ،جس پر ڈاکٹر طاہر القادری اور اُن کے ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنے بڑے مجمعے کو 5روز تک پُرامن رکھااور کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی ۔دوسری بات یہ کہ حکومت کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود آرمی کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیک اوور نہیں کیا اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا، بیشک یہ جمہوریت کی فتح ہے۔
تیسری بات یہ کہ ڈاکٹرطاہر القادری کے حکومتی پالیسیوں کے خلاف اس قدر بڑے لانگ مارچ نے یہ واضح کردیا ہے کہ حکومتوں کو صرف نعروں نہیں، بلکہ عملی طور پر گڈگورننس قائم کرتے ہوئے ایک عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے اور عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر ملک میں حقیقی تبدیلی اور اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کرپٹ ،بے ایمان ،رسہ گیراورجرائم پیشہ افراد کی بجائے ایمانداراور صاف ستھرے کردار کے حامل لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچائیں، جو سیاست کو کاروبارنہیں، بلکہ خدمت سمجھتے ہوں....آخر میں مَیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چودھری شجاعت حسین کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو 27جنوری کو 67برس کے ہوچکے ہیں اوراللہ سے دعا ہے کہ اللہ اُن کو لمبی عمراور صحت کی دولت سے مالامال رکھے کہ ایسے باکردار اور محب وطن سیاستدانوں کی پاکستان کواس وقت شدید ضرورت ہے۔ ٭