قائداعظمؒ سیکولرنہیں تھے
آج کل کچھ لوگوں کی طرف سے بڑی شدومدکے ساتھ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، حالانکہ ان کی تعلیمات، ان کے فرمودات، ان کی نگارشات اور ملفوظات میں کہیں بھی ایسی عبارت دکھائی نہیں دیتی، جس سے اندازہ ہو کہ وہ سیکولر تھے۔اس کے برعکس ان کی تعلیمات سے عیاں ہوتاہے کہ و ہ سیکولر نہیں، بلکہ اچھے مسلمان تھے اور وہ مسلمانوں کے لئے بہت سہانے خواب دیکھاکرتے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 8مارچ 1944ءکو اپنے ایک خطاب کے دوران کہا: ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ ¿ توحید ہے،نہ وطن نہ نسل ، ہندوستان کاجب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا“.... آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ¿ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ ہندوو¿ں کی تنگ نظری تھی، نہ انگریزوں کی چال بازی،یہ اسلام کا بنیاد ی مطالبہ تھا۔
اسی طرح انہوں نے مسلم لیگ کراچی کے اجلاس منعقدہ 1943ءمیں کہا تھا :”وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہو گئے،وہ کون سی چٹان ہے، جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ،وہ کون سا لنگر ہے، جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے“؟....وہ رشتہ ،وہ چٹان ،وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا، ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک اُمت....محمد علی جناح مرحوم نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس منعقدہ 12جون 1947ءمیں کہا تھا: مجھ سے اکثر پوچھا جاتاہے کہ پاکستان کا طرزحکومت کیا ہو گا“؟.... مَیں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 1300سال پہلے قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا، الحمدللہ !قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گا۔
انہوں نے ایک بار یوں کہا تھا:” میرا ایمان ہے کہ قرآن وسنت کے زندہ جاوید قانون پرریاست پاکستان ، دُنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہو گی ۔مجھے اقبال سے پورا اتفاق ہے کہ دنیاکے تما م مسائل کا حل اسلام سے بہترنہیں ملتا، انشاءاللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لاالہ الااللہ ہو گی اور یہ ایک فلاحی ومثالی ریاست ہو گی۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکے گا، لیکن مجھے پختہ یقین ہے، اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا.... سبی دربار بلوچستان میں انہوں نے 14فروری 1948ءمیں کہا تھا میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ سنہری اصولوں والے اس ضابطہ ¿ حیات پرعمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے قائم کیا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث وتمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
آپ نے 1945ءمیں پیغام عیددیتے ہوئے کہا تھا:قرآن مجیدمسلمانوں کاہمہ گیرضابطہ ¿ حیات ہے ، مذہبی ، سماجی ،شہری ،کاروباری ،فوجی ،عدالتی ،تعزیری اورقانونی ضابطہ¿ حیات جومذہبی تقریبات سے لے کرروزمرہ زندگی کے معاملات تک ،روح کی نجات سے لے کرجسم کی صحت تک ،تمام افراد سے لے کرایک فردکے حقوق تک ،اخلاق سے لے کرجرم تک ،اس دنیامیں جزا و سزا سے لے کراگلے جہاں تک کی سزا وجزا تک کی حدبندی کرتاہے.... انہوں نے حیدرآباد دکن کے جلسہ ¿ عام میں 11جولائی1946ءمیں کہاتھاکہ اگر ہم قرآن مجید کو اپناآخری اورقطعی رہبربناکرشیوہ¿ صبر و رضا پرکاربند ہوں اوراس ارشادخداوندی کوکبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں توہمیں دُنیا کی کوئی ایک طاقت یاکئی طاقتیں مل کربھی مغلوب نہیں کر سکتیں۔ہم فتح یاب ہوں گے ،اسی طرح جس طرح مٹھی بھرمسلمانوں نے ایران اور روم کی سلطنتوں کے تحتے الٹ دیئے تھے ۔
سبی بلوچستان کے شاہی دربارمیں ایک بارآپ نے اسوہ ¿ حسنہ پریوں ایمان افروزگفتگوکی اور فرمایا: ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ¿ حسنہ پرچلنے میں ہے جوہمیں قانون عطاءکرنے والے پیغمبراسلام نے ہمارے لئے بنایاہے ،ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اوراصولوں پر رکھیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباءسے ایک بار خطاب میں یوں اظہارمافی الضمیرکیا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیاتھا،جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہواتھا،یہ اس زمانے کی بات ہے، جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی ، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ ¿ توحیدہے ،وطن نہیں اور نہ ہی نسل ۔ 19مارچ1944ءمیں آپ نے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس سے خطاب کے دوران کس قدروضاحت کے ساتھ اسلام کاذکرکیا، وہ ان کے اس جملہ میں عیاں ہوتاہے۔انہوں نے کہاتھا:”ہماری بنیادکی چٹان اورہماری کشتی کا لنگراسلام اورصرف اسلام ہے، ہمارے لئے اسلام ہی کافی شافی ہے“۔ ٭