قومی سیاسی ہنگامے ومحرکات

قومی سیاسی ہنگامے ومحرکات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک دانشور نے قومی سیاسی ہنگاموں کی منظر کشی کچھ اِس طرح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”اپنی بے سروپا سیاسی اُلجھنوں کی شکار، عقائد در عقائد کی پیچیدگیوں میں غلطاں اور ہر آن نجات کی فکر سے بوجھل ،لیکن اپنی سر مستیوں میں مگن ہماری قوم حماقتوں کے شاہکار تخلیق کر رہی ہے اور جب اِس مصروفیت سے کچھ فراغت ہو تو انقلاب کے تانے بانے بننے لگتی ہے“.... ایسے ہی ہنگاموں پر موقوف آج ہماری زندگی ہے مثلاً نگران حکومت کے لئے وزیر اعظم کے انتخاب کا معاملہ، ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی دھرنے اور حکومت سے معاہدے کے محرکات، انتخابی حلقہ بندیوں کی درستگی، قومی سیاست میں نیب کا کردار ، خاص طور پر ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت ، قومی سیاسی ہنگامہ آرائی کا سبب ہیں۔
  پاکستانی قوم بے چینی سے منتظر ہے کہ نگران حکومت جلد بنے اور اِس میں اچھے سے اچھے افراد کو لیا جائے اور خصوصاً نگران وزیراعظم کے لئے کسی نام پر اتفاق ہو۔ اگر ملک میں مروجہ قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو نگران وزیراعظم کا انتخاب حزب اختلاف حکومت اور چیف الیکشن کمشنر کی باہمی مشاورت سے ہونا چاہیے، لیکن حکومت نے اِس کا دائرہ وسیع کرکے ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی مشاورت میں شامل کر لیا ہے اور حزب اختلاف بھی اِن سیاسی جماعتوں سے بات چیت کر رہی ہے جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے کچھ نام تجویز کئے ہیں، لیکن اصل اہمیت اِس بات کی ہے کہ ایک آزاد الیکشن کمیشن بن چکا ہے جو اپنا کام بطریق احسن انجام دے رہا ہے۔ عبوری حکومت کیلئے وزیراعظم کی تلاش جاری ہے لیکن یہ معاملہ اِس لئے اُلجھ گیا ہے کہ حکومت نے آئین سے ہٹ کر ڈاکٹر طاہرالقادری سے معاہد ہ کیا اور جب آئین کی خلاف ورزی ہو جائے تو معاملات اُلجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نگران وزیراعظم کے انتخاب کا معاملہ اُلجھاﺅ کا شکارہے۔
 جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادی کے ساتھ حکومتی معاہدے کا تعلق ہے تو اِس کی نوعیت یہ ہے کہ ایک غیر ملکی شہری، جس کی اپنی جماعت الیکشن کے لئے تیار نہیں،اُس کو وزیراعظم کے برابر کھڑا کر کے معاہدہ کیا گیا اور دستخط کرائے گئے۔ یہ سب ڈھونگ ہے اور شاید حکومت خود اِس سازش میں شامل ہے اور وہی اِس معاہدے کی ضامن بھی ہے۔ اب یہ حکومت ہی کوئی راستہ نکالے گی کہ معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد ہو، لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن رُکوانے کا جو ایجنڈا لے کر آئے تھے، اب وہ قابل عمل نہیں رہا۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ لانگ مارچ ایک نکاتی ایجنڈے پر ہوتا ہے ،جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا متعدد نکات پر مشتمل تھا۔ میاں نواز شریف کے لانگ مارچ کے وقت فوج نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اِس مرتبہ فوج نے حکومت پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ حکومت اِس مسئلے سے خود نمٹے، لیکن حکومت نے تو طاہرالقادری کو وزیراعظم کا پروٹوکول اور سکیورٹی دی۔ اِس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ایک طرح کی ڈیل تھی ،جس کے تحت لانگ مارچ ہوا ‘ دھرنا دیا اور ڈیل کے تحت اِس انقلاب کو لپیٹ بھی دیا گیا۔
 جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کی مرضی کی حلقہ بندیاں کی گئیں جس سے اُن کی نشستیں بڑھ گئیں۔ اُصولی طور پر نئی حلقہ بندی مردم شماری کے بعد ہوتی ہے، کیونکہ حلقہ بندی کا انحصار آبادی کی شرح بڑھنے اور گھٹنے پر ہوتا ہے۔ اِسی بنیاد پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ صرف کراچی میں حلقہ بندیاں کرانا درست نہیں ہوگا۔ وہ آئین اورقاعدے کی رُو سے صحیح کہہ رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر حلقہ بندیاں درست کر دی جائیں تو ایم کیو ایم کے ہاتھ سے کئی نشستیں نکل جائیں گی۔ اگرنئی حلقہ بندیاں کی گئیں تو ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم انتخابات میں حصہ نہ لے .... اِس کا جواب یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ایسی غلطی ہرگز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کر کے وہ اپنے لئے مصیبت کو دعوت دے گی۔
فوج نے ملکی سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے، کیونکہ اگر فوج اِس معاملے میں شامل ہوگی تو اُس پر پھر مداخلت کاالزام آئے گا جیسا کہ نواز شریف کے لانگ مارچ کی مثال دی جا رہی ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے معاملے میں بھی فوج الگ رہی ہے اور آئندہ بھی ایسے معاملات سے الگ ہی رہے گی، لیکن جہاں قومی سلامتی کو خطرہ درپیش ہواتو فوج ضرور حرکت میں آئے گی۔ ایم کیو ایم کو کسی نے فری ہینڈ نہیں دیا، کیونکہ ایم کیو ایم کئی جماعتوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ خود ایم کیو ایم کے آپس کے اختلافات بھی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں ڈیموگرافک تبدیلی آچکی ہے ،جس کے نتیجے میں انتخابی نتائج پر ضرور اثر پڑے گا۔ کراچی میں اب پختونوں کی آبادی پچیس لاکھ سے بڑھ کر پینتیس لاکھ ہو چکی ہے جو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوگی۔
 اِن دنوں نیب کے کردار پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ کامران فیصل کی موت، نیب کی ساکھ اور کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ،اِس لئے جلد ہی اِس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ نیب کے افسران، جنہوں نے احتجاج کیا اور سرکاری تحقیقات کو تسلیم نہیں کیا، وہ جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ اِسی لئے اُن کی طرف سے اِس قدر احتجاج ہورہا ہے اور وہ اُن لوگوں کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں، جنہوں نے یہ کام کیا ہے۔ کامران فیصل نے وہ رپورٹ تیار کی، جس میں موجودہ وزیراعظم اور مختلف دوسرے افسران کو ملوث قرار دیا گیا تھا۔ یہ بھی الزام ہے کہ کامران پر دو کروڑ روپے کی پیشکش کر کے دباﺅ ڈالا جا رہا تھا کہ پچھلی تاریخوں میں اپنے بیان کو واپس لے لے، مگر اُس نے اپنا بیان تبدیل کرنے سے انکار کردیا تھا۔اِس واقعے میں بہت سے شکوک و شبہات ہیں‘ مثلاً واقعے کے بعد2 گھنٹے تک نیب نے حادثے کے مقام کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور کسی کو وہاں آنے نہیں دیا،جس سے اِس شک کو تقویت ملتی ہے کہ شہادتیں مٹائی گئیں ، پھر یہ بیان دیا گیا کہ کامران فیصل نے خود کشی کی ہے۔ کامران فیصل کے ساتھیوں کو منظور نہیں ہے کہ اِس ظلم کو چھپایا جائے۔ اگر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ قتل ہے تو یہ اُن کے خلاف جائے گا ،جن لوگوں کے ناموں کو کامران فیصل نے اپنی رپورٹ میں افشا کیا تھا۔

 پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے چند تازہ ترین حقائق کو سامنے رکھ کر اگر دیکھیں تو بہت سی باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ بھارت امریکہ کا اہم اتحادی ہے، خصوصاً جب سے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور اِس ضمن میں بھارت کی امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ (Strategic Partnership)قائم ہوئی۔ اِس پارٹنر شپ کا مقصد خطے میں بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و عسکری قوت کو روکنا اور کم کرناتھا۔ اِس کے بعد یہ اعلان بھی کیا گیا کہ امریکہ اب افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ سمجھتا ہے، جس کا واضح مقصدبھارت کی بالادستی کو افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک پھیلانا تھا۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان میں شکست کھا چکا ہے اور وہاں سے نکل رہا ہے ،اُس کے منصوبے ناکام ہو گئے ہیں تو یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ انشاءاللہ کل افغانستان میں طالبان کی حکومت بنے گی جو سخت مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ ہیں۔ اُن کی کامیابی سے امریکہ اور بھارت سخت خوفزدہ ہیں۔ اِن حالات میں امریکہ نے اب اپنی طاقت کا محور تبدیل کر دیا ہے اور اب اُس کی سرگرمیوں کا رُخ ایشیاءپیسیفک کی طرف ہے۔ اِس منصوبے میں بھی بھارت کو مرکزی کردار حاصل ہے، کیونکہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت ایک بڑی اقتصادی و عسکری قوت ہے اور اِس کھیل کے کھلاڑی امریکہ، بھارت، آسڑیلیا، جاپان اور جنوبی کوریا مل کر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکہ کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصاً جب سے حزب ا للہ کے ہاتھوں اسرائیل کو شکست ہوئی ہے، اسرائیل بھارت کی طرح بڑی اقتصادی و عسکری طاقت نہیںرہا۔امریکہ اور بھارت کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان میں سیکولر حکومت آئے۔یہاں تک کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے بھی خلاف ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی اُن کے مقاصد کے لئے نقصان دہ ہے ۔ اِس لئے وہ پاکستان میں ایسی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے اُس کی پسندیدہ سیکولر قوتوں کے لئے راہ ہموار ہوجائے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ڈرامہ اِسی لئے رچایا گیا تھا ۔ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش کی طرح ایک سیکولر حکومت قائم کرنا مقصودہے جو افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف بفر (Buffer)کا کام کرے اور پاکستان میں امریکہ کو نرم زمین بھی حاصل ہو۔

بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو سزائے موت دی جارہی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان نے اِس قابل مذمت معاملے پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا۔ مشرقی بنگال ہی وہ صوبہ ہے، جہاں سے پاکستان کا تصور اُبھرا، جہاں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، لیکن وہ ملک جہاں 59فیصد مسلمان بستے ہیں ،وہاں سیکولر حکومت ہے اور اُن دینی جماعتوں کے لوگوں کو جنہوں نے1971ءمیں ہمارا ساتھ دیا تھا ،اُنہیں پھانسی کی سزائیں ہو رہی ہیں۔ ابھی چند روز پہلے بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے رہنما جناب ابوالکلام آزاد کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔امریکہ یہی صورت حال پاکستان کے اندر بھی چاہتا ہے۔ اِن حالات میں پاکستان کو طے کرنا ہے کہ اُسے بھارت کو مراعات کے کن کن تحفوں سے نوازا جائے، وہ بھارت جہاں ہندو ذہنیت اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ خوداُن کا وزیر داخلہ یہ کہتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ایسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے لئے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے تربیتی کیمپ بنا رکھے ہیں۔سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ، احمدآباد میں قتل و غارت گری سمیت مسلمانوں پر جتنے بھی مظالم ڈھائے گئے ہیں، وہ سب اِسی ناپاک ہندو ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ صرف کشمیر میں 1990ءسے لے کر آج تک ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے ۔اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنا حق خودارادیت مانگتے ہیں۔ کشمیر میں گیار ہ مقامات پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، جہاں کشمیری نوجوانوں کو مار کر دفن کر دیا گیا ہے۔ اِس ظلم پر ہماری قوم بھی بے حسی کا شکار ہے‘ نہ امریکہ کا ضمیر جاگتا ہے، نہ اقوام متحدہ کا اور نہ ہی یورپی دنیا کا جو اپنے آپ کو حقوق انسانی کا علم بردار کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ٭

مزید :

کالم -