پڑا ہے ’’زندان‘‘ میں انصاف

پڑا ہے ’’زندان‘‘ میں انصاف
 پڑا ہے ’’زندان‘‘ میں انصاف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوال پھروہی ہے ’’کیا عدالتوں میں انصاف ملتا ہے؟‘‘ نہیں ملتا تو انصاف کے متلاشی کہاں جائیں۔ یہ سچ ہے کہ ناانصافی کی بنیاد پر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ عدل کا نظام پوری دنیا میں قائم ہے۔ جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں بھی عدل کے بغیر ریاست کا نظام نہیں چلتا۔ اسلام میں بھی عدل پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ عدل کے مربوط اور مضبوط نظام سے ہی کسی معاشرے کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں بھی عدل کا ایک مربوط اور مضبوط نظام موجود ہے لیکن اس میں بہت سے سقم اور نقائص موجود ہیں جس کے باعث ہمیشہ عدل و انصاف کے اس نظام پر ہر دور میں تنقید ہوتی رہی ہے۔ کئی مواقع پر کئی سابق ججز اور چیف جسٹس صاحبان بھی برملا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ لوئر کورٹس میں کرپشن موجود ہے۔ مقدمات کے فیصلے جلد نہیں ہوتے۔ جس سے لوگ سستے اور فوری انصاف سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہائی کورٹس کی جانب سے لوئر کورٹس کے متعدد جج صاحبان کے خلاف نوٹسز بھی لئے گئے۔ جس میں ان ججوں کو محکمانہ، عدالتی کارروائی اور برطرفی تک کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود لوگوں کا عدلیہ پر وہ اعتماد بحال نہیں ہو سکا جس کے لئے موجودہ حکومت سمیت کئی سابقہ حکومتیں اور خود اعلیٰ عدلیہ کام کرتی رہی ہیں۔


پاکستان میں نظامِ عدل کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ مجسٹریٹ سمیت سول اور سیشن جج لوئر کورٹس کا حصہ ہیں۔ مختلف اضلا ع میں دہشت گردی، کنزیومر اور لیبر کورٹس بھی کام کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جو سپیرئیر کورٹس کہلاتی ہیں اور جن کے لامحدود اختیارات ہیں۔ تاہم عام لوگوں کو جو کسی بھی وجہ سے داد رسی کے لیے لوئر کورٹس کا رُخ کرتے ہیں، بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑی مشکل انہیں یہ پیش آتی ہے کہ داد رسی کے حصول کے لیے ناصرف انہیں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مقدمہ بازی میں پڑ کر وہ اپنی تمام جمع پونجی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ جو اُن کے لیے شدید ذہنی اذیت، دباؤاور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ یہاں میں تین کیسوں کا حوالہ دوں گا جن میں سائیلین کو طویل مدت تک عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنا پڑی اور فیصلے نہ ہوئے۔ فیصلے ہوئے بھی تو بیس، بیس سال گزر گئے۔ سابق خاتون ایم پی اے اور سینئر جرنلسٹ کنول نسیم کو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ قیمتی اراضی کے ایک کیس میں فیصلے کے انتظار کے لیے نا صرف 20سال اتک انتظار کرنا پڑا بلکہ اس دوران اپنے وکلاء اور دیگر عدالتی اخراجات کی مد میں لاکھوں روپیہ بھی پانی کی طرح بہانا اُن کی مجبوری بنی۔ بالآخر سپریم کورٹ سے اُن کے حق میں فیصلہ ہوا اور کروڑوں کی قیمتی پراپرٹی پر اُن کی ملکیت کو تسلیم کیا گیا جس پر ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے جعلی دستاویزات تیار کر کے قبضہ کر رکھا تھا۔


سیالکوٹ میں مقیم قیوم بٹ جو، اب خیر سے 80سال کے ہو چکے ہیں اکھنور (بھارت) سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ پاکستان کے لیے انہوں نے اکھنور میں اپنی کافی پراپرٹی چھوڑی جس کے عوض ڈی سی سیالکوٹ نے انہیں سیالکوٹ میں ایک قیمتی پلاٹ الاٹ کیا۔ کچھ عرصہ بعد قیوم بٹ کو روزگار کی تلاش میں انگلینڈ جانا پڑا۔ کافی عرصہ وہاں رہے۔ جب پاکستان واپس آئے تو سیالکوٹ والے پلاٹ پر قبضہ ہو چکا تھا۔ پلاٹ پر ایک تانگا بندھا ہوا تھا۔ کچھ سبزیاں بھی اُگی ہوئی تھیں جبکہ پلاٹ پر ایک تعمیر شدہ چھوٹا سا کمرہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ پوچھا گیا تو تانگہ بان نے کہا کہ وہ ایس پی سیالکوٹ کی سرکاری رہائش گاہ کا مالی ہے۔ خود ایس پی صاحب نے اُسے یہ جگہ دے رکھی ہے۔حصول پلاٹ کے لیے ملکیتی دستاویزات کے ہمراہ قیوم بٹ کو بالآخر سول کورٹ جانا پڑا جہاں طویل عرصہ کیس کا ٹرائل ہوا۔ بالآخر فیصلہ قیوم بٹ کے حق میں ہو گیا۔ اس فیصلے کے خلاف تانگہ بان سیشن کورٹ چلا گیا۔ جس کے بعد ایک با پھر اس کیس کا ٹرائل شروع ہوا۔ قیوم بٹ نے یہاں بھی اپنا مقدمہ لڑا اور فیصلہ اُن کے حق میں آیا۔ اس فیصلے کے بعد بھی تانگہ بان خاموش نہیں بیٹھا اور اس بار ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔


قیوم بٹ ابھی تک تمام قانونی ملکیتی دستاویزات کے باوجود اپنے اس پلاٹ سے محروم ہے۔وہ کافی بوڑھا ہو چکا ہے زندگی کی گاڑی بھی بڑی مشکل سے چلا رہا ہے۔ لیکن فیصلہ ہے کہ ہونے کا نام نہیں لے ہا۔قیوم بٹ ابھی تک اپنے پلاٹ سے محروم ہے جو بڑھاپے میں اُس کا آخری سہارا اور اثاثہ ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ پاکستان میں انصاف یا داد رسی کا حصول اتنا مشکل کیوں ہے؟ کیا قیوم بٹ کو مرنے کے بعد انصاف ملے گا، اور داد رسی ہوگی؟ جس کے لیے وہ کئی سال سے قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہاں میں اپنے ایک ذاتی کیس کا بھی ذکر کروں گا۔ واضح رہے کہ میں ایک سابق بینکار ہوں۔ ایک معروف کمرشل بینک کا وزیر آباد میں برانچ مینجر رہا ہوں۔ 2002ء میں بینک انتظامیہ کے خلاف ایک کیس اپنے وکیل کے ذریعے لیبر کورٹ میں دائر کیا جہاں طویل عرصہ کے ٹرائل کے بعد میرے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ بینک کی بااثر انتظامیہ اس فیصلے کے خلاف اپیلٹ کورٹ میں گئی۔ جہاں ایک بار پھر مجھے اس کیس کا سامناکرنا پڑا۔2002ء میں میں نے یہ قانونی جدوجہد شروع کی تھی اور اب 2016ء آ گیا ہے لیکن اس کیس کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا جبکہ میں ایک کینسر پیشنٹ بھی ہوں۔ بیماری کے ساتھ اس عذاب سے بھی گزر رہا ہوں۔ ڈیٹ پر ڈیٹ پڑتی ہے لیکن کیس وہیں لٹکا ہوا ہے ۔میں نے متعدد بار اپیلٹ کورٹ کے جج صاحب سے درخواست کی کہ وہ میرے خلاف ہی فیصلہ دے دیں تاکہ میں اپیل میں ہائی کورٹ جا سکوں لیکن جج صاحب ایسا بھی نہیں کرتے۔ اس طرح انصاف کے تقاضے نہ صرف مجروح ہو رہے ہیں بلکہ میری طرح ہزاروں لوگوں کا اپنی عدالتوں سے اعتماد بھی اُٹھ گیا ہے۔


عدلیہ ایک باوقار ادارہ ہے۔ اس کا جب بھی نام آتا ہے ، احترام کا سلوگن ذہن میں ابھرنے لگتا ہے۔ مگر عدالتوں میں داد رسی، انصاف اور ٹرائل کے نام پر سائیلین کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اُس پر بڑے غور اور فکر کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان سے میری استدعا ہو گی کہ وہ ملک بھر کی تمام چھوٹی بڑی عدالتوں سے ایسے کیسز کی فہرستیں طلب کریں جن کی سماعت سال ہا سال سے ہورہی ہے لیکن جن کے فیصلے آج تک نہیں ہو پائے۔ کسی کو فوری انصاف نہ ملے، تو اُسے انصاف نہیں کہا جا سکتا۔پاکستان اس وقت بہت سی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ عدلیہ کے نظام میں بھی تبدیلی آنی چاہیے۔ ورنہ معاشرے میں سخت اضطراب اور بے چینی پھیلے گی۔ جس کی کسی حد تک جھلک ہمیں معاشرے کے مختلف طبقوں میں دکھائی بھی دے رہی ہے۔ ’’انصاف‘‘ کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن انصاف ہوتے ہوئے بھی دکھائی دینا چاہیے۔ اس میں سب کی بھلائی ہے۔ بہتری کا راستہ یہی ہے کہ ہم اپنے نظام عدل کو ’’عدل‘‘ کے مطابق ترتیب دیں۔ ورنہ ہمیں نہ قوم، نہ معاشرہ، نہ ہی تاریخ معاف کرے گی۔

مزید :

کالم -