ہر الزام پاکستان پر، بھارت کی طرف سے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار
تجزیہ : آفتاب احمد خان
پاکستان کی طرف سے بھارت کے طرز عمل پر تشویش کا اظہار اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کا اپنے ہاں ہونے والی ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا دیے جانے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس الزام کی بنیاد ہی پر بعض اوقات پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیتا رہا ہے جبکہ آئندہ بھی دو طرفہ تعلقات آگے بڑھانے کا انحصار بھارت ہی کے رویے پر ہوگا۔ جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اسی حوالے سے اظہار خیال کیا۔
بھارت کی 13 ریاستوں میں آزادی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں، جن پر بھارتی انتظامیہ مدتوں سے قابو پانے میں ناکام رہی ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جسے نہ پاکستان تسلیم کرتا ہے نہ کشمیر کے عوام۔ ابھی تین دن پہلے ہی ریاست جھاڑ کھنڈ میں ماؤ آزادی پسندوں کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ کے دھماکے میں پانچ پولیس افسر اور دو شہری ہلاک ہوئے، ان میں سے ایک ڈرائیور اور دوسرا گارڈ تھا۔ پولیس کے قافلے کو نشانہ بنانے والوں نے دھماکہ کرنے کے بعد فائرنگ بھی کی۔ بھارت کی مذکورہ ریاستوں میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، ان ریاستوں میں آسام، بہار، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، اڑیسہ، تامل ناڈو، تلنگانہ، تری پورہ اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ وہاں کی انتظامیہ آزادی پسندوں کے سامنے بے بس ہے۔
بھارت کو اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کا الزام بلاتحقیقات پاکستان پر لگا دینے سے پہلے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ مذکورہ ریاستوں کی مسلح تنظیموں کے کارکن بھارت میں کہیں بھی فوج اور انتظامیہ کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔ ان گروپوں پر توجہ دینے کی بجائے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر الزام تراشی غیر منطقی اور بلاجواز ہے، سفارتی آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔
بھارتی حکمران پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی جس مدھم سی خواہش کا اظہار کبھی کبھار کرتے ہیں، اس میں خلوص کا رنگ بھرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ دیانتداری اور غیر جانبداری سے لیا کریں تاکہ حقائق مسخ نہ ہوں اور اصل بھارتی دہشت گرد بھارت ہی میں رہ کر ملک کے لئے آئندہ کوئی خطرہ پیدا نہ کرسکیں۔ بھارت اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات واقعی بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے بلاجواز اور بے بنیاد الزامات لگانے سے اجتناب برتنا ہوگا ورنہ خطے میں امن کی کوششیں آگے نہیں بڑھائی جاسکیں گی۔
ہر الزام