بلیک واٹر عرف ٹی ٹی پی اور ریاست کے گارڈز
قلعہ ر وہتاس ناقابل تسخیر تھا ۔ ہر کشن نامی راجہ اس پر حاکم تھا۔ قلعہ آج تک دہلی اور بنگال کے کسی بادشاہ کے قبضے میں نہیں آسکا تھا۔سپہ سالار بھی آج تک نا قابل شکست رہاتھااور قلعہ فتح کرنا اس کیلئے چیلنج سے کم نہیں تھا ۔سپہ سالارنے راجہ ہرکشن کو پیغام بھیجوایا کہ میں مسلمان مغل بادشاہوں کیخلاف لڑنے کا فیصلہ کر چکا ہوں ۔میرے پاس بہت بڑا خزانہ ہے۔ میں اپنے خاندان اور خزانے کو تمہارے قلعے میں چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔ اگر میں فاتح لوٹا تو ساری زندگی تمہارا احسان مند رہوں گا اور اگر میں مغلوں سے لڑتے ہوئے مارا گیا تو میرا سارا خزانہ تمہاری ملکیت ہوگا اور میرے خاندان کو پالنا تمہاری ذمہ داری ہوگی۔قلعہ روہتاس کے راجہ کو سپہ سالار پر بھروسہ نہیں تھا لیکن خزانے کے لالچ نے اسے رضامند کر دیا۔
راجہ قلعہ کے سکیوٹی گارڈ ز پر بہت بھروسہ کرتا تھا۔راجہ نے سکیورٹی گارڈز کو بلایااور انہیں سپہ سالار کاسارا مال چھان بین کر نے کے بعد قلعہ کے اندر داخل کرنے کی ہدایت کر دی۔سپہ سالار ہوشیار تھا، اس کا ماننا تھا کہ بادشاہ کو مات دینے کیلئے جو کام سکیورٹی گارڈ ز کر سکتے ہیں وہ گھوڑے اور وزیر نہیں کر سکتے ۔چنانچہ اس نے قلعہ کے سکیورٹی گارڈز کیساتھ تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے ۔وہ سکیورٹی گارڈ ز کو اپنی بہادری کے کسے سناتا ،انہیں تحائف دیتا ، لذیذ کھا نے کھلا تا اور ان کی ہر جائز ناجائز فرمائشیں بھی پوری کر دیتا۔سکیورٹی گارڈز کو مٹھی میں کرنے کے بعد اس نے ایک ہزار ڈولیاں تیار کیں ۔ہر ڈولی میں بے ریش جنگجو نوجوانوں کو عورتوں کا لباس پہنا کر بٹھا دیا ۔ہر ڈولی میں ننگی تلواریں چھپا کر رکھ دیں اور سپاہیوں کو کہاروں اور مزدوروں کا لباس پہنا دیا ۔جب یہ قافلہ قلعہ میں داخل ہونے لگا تو سپہ سالار خود قلعہ کے دروازے پر پہنچ گیا ۔سکیورٹی گارڈز نے ڈولیوں کی تلاشی لینے کی کوشش کی تو سپہ سالار نے سابقہ تحائف کا حوالہ دیااور جن سکیورٹی گارڈز نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی تحائف اور مزید رشوت دے کر تمام ڈولیوں اور قافلے کو بغیر تلاشی قلعہ میں داخل کروا دیا۔جیسے ہی ڈولیاں دوسرے دروازوں سے نکل گئیں نوجوان ڈولیوں سے نکلے اور قلعہ پر حملہ کر دیا۔سب سے پہلے سکیورٹی گارڈز کو قتل کیااور چند ہی لمحوں میں ڈیوڑھی پر قبضہ کر کے دروازوں کو چوپٹ کھول دیا ۔
راجہ خفیہ راستے سے جان بچا کر بھاگ گیا اور سپہ سالار نقارہ بجاتے ہوئے قلعہ میں داخل ہو گیااور یوں ایک نا قا بل شکست قلعہ روہتاس سکیورٹی گارڈز کے تحفے تحائف اور رشوت کے لالچ کے باعث فتح ہو گیا ۔جی ہاں آپ اب تک اس سپہ سالار کا نام جان چکے ہوں گے۔ یہ مغل بادشاہوں کو لوہے کے چنے چبوانے والے، معاملہ فہم ،ذہین اور بہادر شہنشا ہ شیر شاہ سوری کی قلعہ روہتاس فتح کرنے کی کہانی تھی اور شیر شاہ سوری کی اس فتح نے ثابت کر دیا کہ اگر کسی قلعہ ،ریاست یا ملک کے سکیورٹی گارڈز بک جائیں تو اس ملک کو بغیر کسی جنگ کے با آسانی فتح کیا جا سکتا ہے ۔ آپ اس واقعہ کو سامنے رکھیں او ر اس کا موازنہ مملکت پاکستان میں 21 جنوری 2017کو پارہ چنار کی سبزی منڈی میں صبح 8بج کر 5منٹ پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم دھما کوں اور اس حوالے سے تحر یک طالبان پاکستان کے رد عمل سے کریں تو آپ ایک حیران کن صورتحال کا مشاہدہ کر سکیں گے۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس بم حملے کا شیر شاہ سوری کے قلعہ روہتاس فتح کرنے سے کیا تعلق ہے۔مجھے یقین ہے کہ بلاگ کے اختتام پر اس تعلق کو سمجھ چکے ہوں گے ۔1998میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکا سمیت پاکستان میں بد امنی پھیلانے اور پاکستانی ایٹمی بم کو پوری دنیا کیلئے خطر ہ قرار دینے کا منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے امریکا نے شیر شاہ سوری کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے سکیورٹی گارڈز پرویز مشرف کیساتھ تعلقات استوار کیے، اسے تحفے تحائف دیے اقتدار کا لالچ دیا اور 2003میں دنیا کی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم بلیک واٹر کو پاکستان میں داخل کروا دیا۔اور جب پرویز مشرف نے بلیک واٹر کے بارے میں امریکا سے استفسار کیا تو اس نے مشرف کو اپنے سابقہ تحائف کا حوالہ دیا اور مزید تحائف دے کر بلیک واٹر کی پوری فوج کو بغیر کسی ویزہ اور چیکنگ کے پاکستان میں اڈے بنانے کی اجازت بھی دلوا دی ۔بلیک واٹر نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی ،فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دی ،اہل تشیع کی مساجد میں اہل سنت اور اہل سنت کی مساجد میں اہل تشیع کے نام سے خود کش حملے کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں نا ختم ہونے والے ریموٹ کنٹرول اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
پرویز مشرف کے بعد امریکا نے شیر شاہ سوری کے فلسفے کو جاری رکھتے ہوئے نئے سکیورٹی گارڈزاشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا سے تعلقات قائم کر لیے اور بلیک واٹر پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے شہر یہاں تک کہ دیہاتوں میں بھی اپنا نیٹ ورک پھیلانے میں کامیاب ہوگئی ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ26جولائی2013کو پارہ چنار کے بازار میں موٹر سائیکل کے ذریعے 2 ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کروائے جس میں 60افراد شہید اور 187سے زائد زخمی ہوئے جن میں اکثریت اہل تشیع کی تھی۔اس کی ذ مہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی اور جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ تحریک طالبان پاکستان در اصل بلیک واٹر کا پاکستانی ورژن ہے اور یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ وہی بلیک واٹر ہے جسے ہمارے سیکیورٹی گارڈ پرویز مشرف نے 2003میں اقتدار کے لالچ میں پاکستان میں داخل کیاتھا ۔اسی طرح13دسمبر2015میں پارہ چنار میں پھر سے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کروائے گئے جن میں 25افراد موت کی وادی میں چلے گئے اور 70سے زائد زخمی ہوئے اور جب تحقیقات کی گئیں تو اس کے تا نے بانے بھی پرویز مشرف کی فراہم کردہ بلیک واٹر سے جا ملے اور اب آپ21جنوری2017کوپارہ چنار کی سبزی منڈی میں ہونیوالے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا مشاہدہ کریں تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اس کی ذمے داری بھی پچھلے حملوں کی طرح بلیک واٹر عرف تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ۔یعنی کہ پارہ چنار میں ہونیوالے تینون ریموٹ کنٹرول حملے بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کے مرہون منت ہیں اور بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی ہمارے ملک کے سیکیورٹی گارڈز کی مرہون منت ہے اور امریکہ کے ملک پاکستان کے سیکیورٹی گارڈز سے خوشگوار تعلقات شیر شاہ سوری کے فلسفے کی مرہون منت ہیں۔ ہمارے سیکیورٹی گارڈز نے ملک پاکستان کے صدر بننے کی لالچ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مدت ملازمت کی توسیع کے لالچ میں پاکستان کو بلیک واٹر کا تحفہ دیا ہے اور اس تحفے کی قیمت پاکستانی عوام بلخصوص پارہ چنار کے مظلوم لوگ کئی بار جانوں کا نذ رانہ پیش کر کے ادا کر چکے ہیں اورامریکہ پاکستان کے ایٹم بم کو پوری دنیا کیلئے خطرہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ میری ملک پاکستان کی سیکیورٹی گارڈز سے گزارش ہے کے وہ چند ٹکوں اور مدت ملازمت میں توسیع کے عوض بلیک وا ٹر جیسی تنظیموں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ دیں کیونکہ جب ریاست کے سیکیورٹی گارڈز بک جائیں تو روہتاس جیسا نا قابل تسخیر قلعہ بھی فتح ہو جاتا ہے اور حملہ آور سیکیورٹی گارڈز کی لاشوں پر فتح کے جھنڈے گاڑ کر انہیں عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں اور تاریخ انہیں محافظ لکھنے کی بجائے غدار کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔