سوئٹزر لینڈ اور ورلڈ اکنامک فورم
ڈیووس (Davos) سوئٹزر لینڈ کا ایک قصبہ ہے۔ سوئٹزر لینڈ آب و ہوا کے اعتبار سے بڑا سرد اور خشک ملک ہے، اس کے پہاڑی سلسلے الپس کہلاتے ہیں اور ان پرسال کے اکثر مہینوں میں برف باری ہوتی ہے، برن اس کا دارالحکومت ہے، ایک دوسرے شہر جنیوا میں بہت ساری عالمی کانفرنسیں ہوچکی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں، اس ملک کی سٹریٹیجک اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں، دو سو سال سے یہ ملک جدید مغربی ممالک میں ایک اہم اور معروف حیثیت کا حامل رہا ہے، اس کے جنیوا کی اہمیت کے پیش نظر حضرت اقبال نے کہا تھا کہ اگر تہران، ایشیاء کا جنیوا بن جائے تو شائد اس دنیا کی تقدیر بدل جائے:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے
گزشتہ صدی کی عالمی جنگوں میں سوئٹزر لینڈ دو متحارب فریقین جنگ میں سینڈوچ بنا ہوا تھا، شمال میں جرمنی مغرب میں فرانس تھا جو اتحادیوں کے ساتھ تھا اور جس پر مئی 1940ء میں جرمنی نے قبضہ کرلیا تھا، اٹلی بھی جرمنی کا حلیف تھا، لیکن آغاز جنگ میں ہی سوئٹزر لینڈ نے اپنی ’’حیثیت‘‘ پہچان لی تھی اور اپنے آپ کو غیر جانبدار ملک ڈکلیئر کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ محوریوں (Axis) کی یلغار سے بچا رہا، (محوریوں میں جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل تھے) سوئٹزر لینڈ کے غیر جانبدار رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی مسلح افواج کا حجم برائے نام تھا، اس لئے اس کو نہ تو اتحادیوں نے چیلنج کیا اور نہ محوریوں نے (اتحادیوں میں درج بالا تین محوری قوتوں کے علاوہ باقی ساری دنیا کے ممالک شامل تھے!)
سوئٹزر لینڈ کی گھڑیاں اور ادویات دنیا بھر میں مشہور ہیں، چونکہ آب و ہوا سرد اور شفاف ہے اس لئے گرد و غبار کا نام و نشان نہیں، اسی لئے دنیا کی خوبصورت ترین، صحیح ترین اور مہنگی ترین گھڑیاں اس ملک میں بنتی ہیں جن کے خریداروں میں عرب دنیا کے پرنس اور دوسرے ملکوں کے ارب پتی شامل ہیں، یہاں کے برن میں دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اربوں ڈالر کی مالیت کی ایک ایسی مشین نصب کی ہے جو مادے کے حقیر ترین ذرے (بوسون) کی دریافت کے لئے مشہور ہے، ہم جانتے ہیں کہ ایٹمی قوت کا راز خفیف ترین ذرے کو پھاڑنے میں پنہاں ہے۔
مادے کے موٹے ذرات کو توڑا جائے تو وہ باریک ذروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن جب ان باریک ترین ذروں کو مزید توڑا جائے تو ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ یہ ٹوٹنے سے انکار کردیتے ہیں، اسی ’’انکار‘‘ کا نام ایٹمی قوت ہے۔ برن میں واقع اس مشین میں ذروں کو توڑنے کا عمل جاری رکھ کر یہ تجربہ کیا گیا کہ آیا ایٹمی فشن کے زنجیری رد عمل (Chain Re-action) سے ایٹم بم کے دھماکے سے بھی کوئی زیادہ ہولناک اور تباہ کن دھماکہ ہوسکتا ہے؟۔۔۔ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے، اقبال اگرچہ ایک شاعر تھے لیکن ان کا یہ شعر ایٹم بم کی ایجاد سے کئی عشرے پہلے بانگِ درا کی ایک نظم کا حصہ بن چکا تھا:
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
سوئٹزر لینڈ میں کوہ پیمائی کا موسم سارا سال رواں دواں رہتا ہے، اگرچہ ان پہاڑوں کی بلندی ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش سے کم ہے لیکن ان سوس (Swiss) پہاڑوں پر جو برف باری ہوتی ہے اس کی کشش سال بھر دنیا کے بہت سے کوہ پیماؤں کا دامن تو جہ کھینچتی رہتی ہے۔
سرو و صنوبر، آبنوس اور دیودار کے درختوں کا لا متناہی سلسلہ پھیل کر سارا سال عشاقِ فطرت کو اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔
لیکن سوئٹزر لینڈ کی سر زمین کا سب سے عظیم اثاثہ وہاں کی آبادی کا بلند پیمانہ ذہانت (I-Q) ہے۔ وہ مظاہر قدرت کی ہیبت ناکیوں سے مرعوب نہیں ہوتے بلکہ ان کو تسخیر کرنے میں ایک خاص شہرت رکھتے ہیں، سرمائی کھیلوں مثلاً سکی انگ وغیرہ کے مقابلے یہاں سارا سال ہوتے رہتے ہیں۔
برف پوش پہاڑوں کو کھود کر ان میں سرنگیں بنائی گئی ہیں اور دور دراز کے شہروں اور قصبوں کو تیز ترین ٹرینوں کے ذریعے آپس میں ملا دیا گیا ہے، دنیا کی سب سے طویل سرنگ بھی اس ملک میں واقع ہے، برف پوش میدانوں پر دوڑتی ریل گاڑیاں عجیب مناظر پیدا کرتی ہیں۔
حال ہی میں ایک ٹرین ایسی بھی بنائی گئی ہے جو دامنِ کوہ سے چلتی ہے تو اس طرح کی پٹریوں پر سے اوپر چڑھتی اور نیچے اترتی ہے جس طرح ہماری گاڑیاں (کاریں) مری کی پہاڑیوں پر چڑھتی اترتی ہیں، بلندیوں پر آتی جاتی ٹرینوں کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں لیکن ان کی رفتار اور بوگیوں کی تعداد ایک انوکھا واقعہ ہے، اس کا پہلا مظاہرہ چین نے شنگھائی سے لہاسہ (چین کے تبت کا دارالحکومت) تک ریل کی پٹری بچھا کر اور اس پر ریل چلا کر کیا تھا۔
اسی کی نقل سوئٹزر لینڈ نے کی اور ان شاء اللہ اب جلد ہم بھی حویلیاں سے خنجراب تک پاکستان میں ایسی ہی ریل گاڑی چلائیں گے جو سی پیک (CPEC) کا حصہ ہوگی۔
چونکہ سوئٹزر لینڈ ایک طویل عرصے سے کاروبارِ جنگ و جدال سے الگ رہا ہے اس لئے اس کی مسلح افواج کی تاریخ کوئی زیادہ قابلِ ذکر نہیں، ریگولر آرمی کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار جبکہ لازمی جبری بھرتی کی وجہ سے یہ تعداد 18 لاکھ تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن افواج کا ٹریننگ کا عرصہ صرف 5 ماہ کا ہے۔
یہ مہینے گزار کر جبری طور پر بھرتی ہونے والے افسروں اور جوانوں کو واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
سوس (Swiss ) آرمی کی جمعیت (Strength) صرف چار میکانائزڈ بریگیڈوں تک محدود ہے۔ اسی طرح سوس فضائیہ کے پاس بھی چند سکواڈرن ہیں جن میں ہر قسم کے طیارروں (لڑاکا، ریکی، ٹرانسپورٹ وغیرہ) کی تعداد صرف 270 ہے، لڑاکا طیاروں میں سب سے مشہور طیارہ F/A - 18 ہے۔
یعنی برسوں امن کی زندگی گزارنے والوں کو لڑائی کا کچھ تجربہ نہیں، 25 فیصد جبری بھرتی میں آنے والے فوج کی سروس کے لئے اہل قرار دیئے جاتے ہیں۔ ہاں اقوام متحدہ کی امن فوج کے لئے سوس (Swiss) آرمی کے چند نمائشی دستے ضرور دوسرے ملکوں کو بھیجے جاتے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا کل رقبہ 16 ہزار مربع میل اور آبادی 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ برن، زیورچ اور جنیوا بڑے بڑے شہر ہیں۔۔۔ اس کے جنوب میں اٹلی، شمال میں جرمنی، مغرب میں فرانس اور مشرق میں آسٹریا واقع ہیں، چونکہ یہ ملک ’’زمین بند‘‘ (Land Locked) ہے اس لئے اس کی مسلح افواج میں کسی بحریہ کا وجود نہیں۔ البتہ کئی خوبصورت جھیلیں ہیں جن میں کشتی رانی کے مقابلے (بالخصوص موسم گرما میں) جاری رہتے ہیں۔
جیسا کہ کالم کے آغاز میں کہا گیا، ڈیووس (Davos)محض ایک قصبہ ہے جو خوبصورت فطری مظاہر میں گھرا ہوا ہے۔ اس سال شدید برف باری ہوئی اور ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ کا جو اجلاس گزشتہ ہفتے یہاں منعقد ہوا تھا (23 تا 26 جنوری 2018ء) اس میں وہ چہل پہل دیکھنے میں نہیں آئی جو گزشتہ برسوں میں اس کانفرنس کے انعقاد کے ایام میں ہوتی تھی۔
ہمارے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اس فورم میں شرکت کے لئے ڈیووس گئے تھے اور ناشتے کی میز پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔
اس فورم کا آغاز 1971ء میں ہوا تھا اس میں دنیا بھر کے سیاسی اور بزنس لیڈر آتے اور تقریریں کرتے ہیں۔ اس بار نریندر مودی کو سب سے پہلے تقریر کا موقع دیا گیا اور سب سے آخر میں صدر ٹرمپ نے اپنے کلیدی خطاب میں ’’امریکی عظمت‘‘ کے قصیدے گائے اور ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ایک اور اہم اور عجیب موضوع جس پر ٹرمپ نے اظہار خیال کیا وہ اپنے میڈیا کی مذمت تھی۔
یہ مذمت انہوں نے نہایت ’’کھلے دل‘‘ اور ’’کھلی زبان‘‘ سے کی۔ میڈیا والوں کو Mean کہہ کر ’’یاد‘‘ کیا گیا۔ اس کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی۔ ایک سال سے امریکی میڈیا نے ٹرمپ کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے اس کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا کہ امریکہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے لیکن میڈیا والے انتہائی ’’نیچ اور ذلیل حرکات‘‘ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے آپ کو ایک زیرک اور کامیاب بزنس مین قرار دیا اور کہا کہ میں نہ تو سابقہ فوجی ہوں اور نہ سیاست دان ہوں، اس لئے میڈیا میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ان کو پہلی بار ایک نان ملٹری اور نان پولی ٹیشن سے واسطہ پڑا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارا وزیراعظم کہیں اپنے میڈیا (یا کسی عالمی میڈیا) کو اس قسم کے خطابات سے نوازتا یا اس طرح کی خوبیوں سے سرفراز کرتا تو ہم نے پورا مہینہ میڈیا پر اس کا حشر نشر کر دینا تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا نے اپنی اس ’’عزت افزائی‘‘ کا کچھ نوٹس نہیں لیا۔
شائد وہ پہلے ہی ساری حدیں کراس کر چکا ہے۔ اگر آپ واشنگٹن پوسٹ، وال سٹریٹ جرنل، اکانومسٹ اور دی نیویارک ٹائمز وغیرہ کو دیکھیں تو سارا پرنٹ میڈیا ایک طرف ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ دوسری طرف کھڑا ہے۔۔۔ ندی کے دونوں کناروں پر چلنے والے یہ مسافر ندی کے کناروں پر چلے جا رہے ہیں۔۔۔ ایک بہاؤ کی سمت میں اور دوسرا بہاؤ کی مخالف سمت میں۔