تخت لاہور اور تختہ

تخت لاہور اور تختہ
تخت لاہور اور تختہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ساہیوال کے واقعہ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب حکومت پہلے ہی سے ایک کمزور حکومت ہے جو مسلم لیگ (ق) کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ کسی دن چودھری برادران نے بیساکھی کھینچ لی تو حکومت کا کھڑا رہنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔

ایک تو حکومت نمبر گیم میں پہلے ہی چودھری برادران کو چوبیس گھنٹے خوش رکھنے کی محتاج ہے، دوسرے عمران خان نے نہ جانے کیوں اپنی پارٹی کے اسمبلی ممبران میں سے ایک کمزور وزیر اعلی عثمان بزدار کا انتخاب کیا جو پانچ مہینے گذرنے کے بعد بھی اپنے آپ اور پنجاب کے عوام کو روزانہ کی بنیاد پر یقین دلاتے ہیں کہ وہ وزیر اعلی ہیں۔تخت لاہور چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے کہ تخت کو تختہ ہونے سے بچا لیجئے۔ کمزور حکومت اور کمزور وزیر اعلی کے بعد اگلی مصیبت یہ ہے کہ ان پانچ مہینوں میں پنجاب حکومت نے ڈلیورنہیں کیا ۔ پورے صوبے پر موت جیساسکوت ہے، ایسے لگتا ہے کہ پنجاب حکومت انٹارکٹکا میں ہے جس کی وجہ سے ہر چیز جامد ہے۔

تمام کام رکے ہوئے ہیں، صوبے میں کوئی نئی ڈویلپمنٹ ہے اور نہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع ہو رہا ہے۔ لوگ جب عثمان بزدار کا مقابلہ میاں شہباز شریف سے کرتے ہیں تو انہیں پچھلی متحرک اور موجودہ مفلوج حکومت میں فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔اس ماحول میں اس وقت کرائسس پیدا ہو جاتا ہے جب اچانک کوئی بڑا واقعہ یا سانحہ پیش آ جائے، ساہیوال میں بھی ایسا ہوا۔ وزیروں کے بیانات میں بدحواسیاں اتنی نمایاں تھیں کہ چھپانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود نہ چھپ سکیں۔

صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے تو باقاعدہ اتنی بڑی بڑی بونگیاں ماریں کہ جس نے ان کے ارشاداتِ گرامی سنے، انہیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی برا بھلا کہتا رہا۔ان کا collateral damage والا بیان ہر لحاظ سے فرانس کی ملکہ میری کے روٹی کیک والے بیان کا ہم پلہ ہے۔ اسی طرح کچھ اور وفاقی اور صوبائی وزیر بھی اپنے اپنے حصہ کی بونگیاں مارتے رہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان اور صدرِ مملکت ڈاکٹر سمیت پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو خفت اٹھانا پڑی اور عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے انہیں معذرت خواہانہ لہجہ اپنانا پڑااور طفل تسلیوں والے ٹویٹ بھی کرنا پڑے۔

ویسے ایک وہ لمحہ بھی آیا جب ساہیوال میں جاں بحق ہونے والوں کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری دہشت گرد اور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی شہید کہہ رہے تھے۔پاکستان تحریک انصاف کو جتنی مرضی سپورٹ حاصل ہو، موجودہ وزیر اعلی اور موجودہ حکومت کی صفر بٹا صفر کارکردگی کی وجہ سے بہت لمبا نہیں چل پائے گی، خاص طور پر اس لئے بھی کہ پنجاب اسمبلی کے نمبر گیم میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، کسی بھی وقت چیزیں الٹ پلٹ سکتی ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں حکومت بنانے کے لئے 186 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد 180 ہے، گویا سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لئے اسے چھ ممبران کی حمائت درکار ہے۔ مسلم لیگ (ق) اس کی اتحادی جماعت ہے جس کے ممبران کی تعداد 10 ہے۔ مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کے عوض پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں سپیکر کا عہدہ مسلم لیگ (ق) کے چودھری پرویز الہی کو دے رکھا ہے، مرکز اور پنجاب میں کچھ وزارتیں اس کے علاوہ ہیں۔

جب تک مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف کا اتحاد قائم رہتا ہے، اس وقت تک پنجاب میں اس اتحاد کو اکثریت رہے گی ۔ البتہ اتحاد ٹوٹنے کی صورت میں پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے ۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں چار آزاد اراکین ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چودھری بلال اصغر، لیہ سے احمد علی اولکھ، ملتان سے قاسم عباس خان اور اوکاڑہ سے سیدہ میمنات محسن (جگنو محسن) ہیں ،جبکہ ایک ایم پی اے محمد معاویہ ہیں جو جھنگ سے راہ حق پارٹی (جس کا شجرہ سپاہ صحابہ پاکستان سے جا ملتا ہے)۔

اپوزیشن کی بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) ہے جس کے پنجاب اسمبلی میں 167 اراکین ہیں ،جبکہ پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن میں ہے ،لیکن اس کے ممبران کی تعدادصرف سات ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو پنجاب حکومت مسلم لیگ (ق) کی دس سیٹوں کی وجہ سے قائم ہے اور اگر کبھی کھڑاک ہوا تو پنجاب حکومت گرسکتی ہے۔ حکومت کے مخالف حلقوں میں ایسے بھی ہیں جو مسلم لیگ (ق) کو اتحاد سے علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی چودھری پرویز الہی کو وزیر اعلی بننے کی پیشکش کر دیں تو عملی طورپر پنجاب میں حکومت کی تبدیلی ممکن ہے۔ پچھلے دنوں کچھ سیاسی ہلچل بھی رہی جب مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرحافظ عمار یاسر نے استعفی دینے کا اعلان کیا۔

اس کے بعدپاکستان تحریک انصاف کے سینئیر لیڈر پرویز خٹک متحرک ہوئے جس کی وجہ سے حافظ عمار یاسرکا استعفی منظور نہیں کیا گیا تاکہ وہ بطور وزیر کام کرتے رہیں اورپاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت مرکز اور پنجاب دونوں جگہوں پر چلتی رہے۔پاکستان کی سیاست پنجاب کے گرد گھومتی ہے، کیونکہ پنجاب کی آبادی ملک کا 56 فیصد ہے اور اسی تناسب سے قومی اسمبلی میں بھی پنجاب کی سیٹیں ہیں۔ چونکہ مرکز میں بھی حکومت اور اپوزیشن میں چند نمبروں کا ہی فرق ہے اس لئے اگر لاہور میں کچھ ہوا تو اس کا اثر اسلام آباد تک ضرور پہنچے گا۔

وزیر اعلی عثمان بزدار کی زیرو کارکردگی اور مفلوج لیڈر شپ کی وجہ سے پنجاب میں قیادت کی تبدیلی کی قیاس آرائیاں ہر وقت ہوتی رہتی ہیں اور وزارت اعلی کے بڑے امیدواربھی ہر وقت پر امید رہتے ہیں کہ نگاہِ انتخاب شائد ان پر بھی پڑ جائے۔ جہانگیر ترین تو خیر نا اہل قرار دئیے جا چکے ہیں، لیکن علیم خان او ر کئی دوسرے سینئیر صوبائی لیڈر وزیر اعلی بننے کی خواہش رکھتے ہیں ، حتی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حوالہ سے کبھی خبر آ جاتی ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی ایک خالی سیٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے وزیر خارجہ صوبائی اسمبلی میں صرف ا سی وقت جانا چاہے گا کہ اسے وزارت اعلی کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہو۔پنجاب میں پہلے ہی معاملات اس لئے بھی نہیں چل پارہے کہ صوبہ میں اعلان شدہ وزیر اعلی عثمان بزدار کے علاوہ کئی غیر اعلانیہ وزرائے اعلی موجود ہیں جن میں گورنر چودھری سرور، سپیکر پرویز الہی، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، علیم خان اور عون چودھری وغیرہ شامل ہیں اس لئے آپس میں رسہ کشی بھی ہوتی رہتی ہے۔

اگرچہ عثمان بزدار کو ہٹانے کی قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان آخری ممکن سیکنڈ تک وزیر اعلی تبدیل نہیں کریں گے ،بلکہ وہ کھل کراور ٹھونک بجا کر اپنے وزیر اعلی کی حمائت اور انہیں وسیم اکرم پلس کہتے رہیں گے۔ سانحہ ساہیوال کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کا اعلان کیا گیا ہے اور اسی طرح سی ٹی ڈی کی پوری ٹاپ مینجمنٹ اور بعض دیگر اہم افسران بھی بطور سزا معطل یا تبدیل ہوئے ہیں۔ اس سانحہ کی تحقیقات اور مقدمہ کا ڈراپ سین جو بھی ہو، میرا نہیں خیال کہ یہ پنجاب حکومت یا وزیر اعلی کے گرنے میں کوئی کردار ادا کر سکے گا۔

پنجاب میں اگر کبھی کچھ ہوا تو وہ چودھری برادران کی طرف سے بیساکھی کھینچ لینے سے ہو گا۔ لڑکپن میں جب ہم محلہ کرکٹ کھیلتے تھے تو ایک لڑکے کو آؤٹ ہوجانے کے باوجود ناٹ آؤٹ مانتے رہتے تھے ،کیونکہ بلا اس کا ہوتا تھا اور اس کی عادت تھی کہ اگر اسے آؤٹ کرتے تو وہ ناراض ہو کر اپنا بلا لے کر گھر چلا جاتا تھا اور پھر کھیل ختم کرنا پڑتا تھا۔ ایک اصطلاح ہوتی ہے win-win ۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنا کر عمران خان نے اس کے برعکس lose-lose آپشن کا انتخاب کیا ہے۔ وہ کچھ بھی کر لیں، میچ نہیں جتوا سکتے۔

بارہ کروڑ کا صوبہ وہی وزیر اعلی چلا سکتا ہے جس کا بطور منتظم اور سیاست دان وسیع تجربہ، ویژن اور لیڈرشپ صلاحیتیں ہوں، لیکن عثمان بزدار ان چیزوں سے محروم ہیں۔وزیراعلی پنجاب کی اپنی سٹینڈنگ اتنی ضرور ہونی چاہئے کہ وہ پارٹی ایم پی ایز کی اکثریت کو ساتھ لے کر چل سکے۔کیا وزیر اعلی پنجاب میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ صوبہ کے لئے سیاسی، معاشی اور انتظامی اہداف مقرر کر سکیں، ان پر پہرہ دیں اور پراجیکٹس ڈلیور کر کے دکھا سکیں۔ یقیناًنہیں اور یہ پنجاب کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ انہیں کسی استخارہ یا نعرہ کا اسیر بنا دیا جائے۔

کیا عمران خان بتا سکتے ہیں کہ پچھلے 5مہینوں میں پنجاب میں کسی قسم کا کوئی ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہو؟ چھ چھ وزرائے اعلی میں ہو بھی نہیں سکتا ،کیونکہ پنجاب میں طاقت اور اختیارات کا کوئی مرکز نہیں رہا ، ہر قسم کی ترقی ٹائیں ٹائیں فش ہو چکی ہے۔کوئی طاقتور وزیر اعلی ہوتا تو سانحہ ساہیوال کے فورا بعد سب سے پہلے آئی جی پنجاب کو معطل کرتا، لیکن نام کے وزیر اعلی کو تو اتنی کامن سینس بھی نہیں کہ مقتولین کے صدمہ کی حالت کے بچوں کو پھولوں کا گلدستہ نہیں پیش کیا جاتا۔

بہر حال، پاکستان کی سیاست میں تخت لاہور اہم ہے۔ اس وقت یہ عمران خان کے پاس ہے ،لیکن اس تخت کا ایک پایہ مسلم لیگ (ق) کی بیساکھی ہے۔اگر یہ ایک پایہ ہٹا لیا گیا تو تخت لاہور کا دھڑن تختہ ہو جائے گا ۔ تخت یا تختہ والا آپشن گجرات کے چودھریوں کے پاس ہے، بنی گالہ کے خان کے پاس نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -