نیب ملک کی بہتری میں رکاوٹ،شیخ رشید ریلوے کو منافع بخش بنانے کیلئے دو ہفتوں میں جامع پلان پیش کریں،عمل نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی:چیف جسٹس
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سندھ واٹر کمیشن اور اس کے سیکریٹریٹ کو تحلیل کرتے ہوئے تمام تر ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرنے کا حکم د یدیا، عدالت نے ہدایت کہ سندھ حکومت واٹر کمیشن کی رپورٹ پرہر 15 دن میں عمل در آمد رپورٹ پیش کرے، ایڈووکیٹ جنرل واٹرکمیشن کی رپورٹ پرعملدرآمد یقینی بنائیں، سندھ کول اتھارٹی کی جانب سے کول مائینز پر 158 ارب روپے کے اخراجات کی تفصیل جمع کرائی جائے، نیب کو مقدمات کے حوالے سے ریفرنس و دیگر معاملات ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم، چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نیب استحصالی ادارہ بن چکا جس مقصد کے لئے ادارہ بنا تھا وہ ختم ہوگیا،نیب کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں ہو رہا۔ منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ نیب کی جانب سے آر او پلانٹس تنصیب میں پیسے کی خرد برد کی رپورٹ جمع کروائی گئی جبکہ واٹرکمیشن نے بھی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں روپے کھا لیے گئے لیکن ایک بھی آر او پلانٹ نہیں لگا، سب پیسے کھا گئے ہڑپ کر گئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب لوگوں پرہاتھ ڈالتا ہے، نیب کا تفتیشی افسر ریفرنس تیار کرنے میں پانچ سال لگاتا ہے، پھر ایک دن نیب کا افسر خود کہتا ہے کہ ملزم کو جانے دیا جائے، نیب اب استحصالی ادارہ بن چکا ہے، نیب کو جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں ہو رہا، اسے جس مقصد کے لئے بنایا گیا وہ ختم ہوگیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے نیب نے کردار ادا کرنا تھا مگر وہ اس میں میں رکاوٹ بن گیا ہے، ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیے 6، 6 سال گزر جاتے ہیں، 4 گواہان کی جگہ آپ مقدمے میں 200 گواہ بنالیتے ہیں، آپ 2 سال میں ریفرنس بناتے ہیں اور 10، 10 سال آدمی کو رگڑتے رہتے ہیں، آپ کے تفتیشی افسران میں صلاحیت ہی نہیں کہ وہ تفتیش کو انجام تک پہنچائیں، آپ کے اندر کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، آپ پر تو اربوں روپے کا جرمانہ ہونا چاہیے، یہ جرمانہ آپ کی جیبوں سے جانا چاہیے حکومت ایک روپیہ نہیں دے گی۔سپریم کورٹ نے سندھ واٹر کمیشن اور اس کے سیکریٹریٹ کو تحلیل کرتے ہوئے اپنا تمام تر ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے ہدایت کہ سندھ حکومت واٹر کمیشن کی رپورٹ پرہر 15 دن میں عمل در آمد رپورٹ پیش کرے، ایڈووکیٹ جنرل واٹرکمیشن کی رپورٹ پرعملدرآمد یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ میں واٹر کمیشن کا کام پورا ہونے کے بعد تمام درخواستیں نمٹا دیں۔عدالت نے سندھ میں تھر کول مائننگ کی آڈٹ رپورٹ پر جواب جمع نہ کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کول اتھارٹی کی جانب سے کول مائینز پر 158 ارب روپے کے اخراجات کی تفصیل جمع کرائی جائے۔ عدالت نے سندھ کول اتھارٹی کیس اور صاف پانی کیس کو یکجا کرنے جبکہ نیب کو مقدمات کے حوالے سے ریفرنس و دیگر معاملات ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔
نیب سرزنش
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس میں شیخ رشید سے دو ہفتوں میں ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے جامع پلان طلب کر تے ہوئے کہا ہے کہ اگر شیخ رشید نے عدالت کو دیئے گئے اپنے پلان پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، عدالت عظمیٰ نے ایم ایل ون کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر اور سیکرٹری منصوبہ بندی کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا،عدالت نے سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے مزید وقت دینے سے انکار کر تے ہوئے کہا سرکلر ریلوے ٹریک سے بے گھر ہونے والوں کی بحالی ریلوے کی ذمہ داری ہوگی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا میرے خیال سے ریلوے آپ بند ہی کردیں،ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں، ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک اور نہ بوگیاں، ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں زمین دے دیتے ہیں لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن آپ کا ادارہ سب سے نااہل ہے، ریلوے کا ہر افسر پیسے لے کر بھرتی کررہا ہے، ایم ایل منصوبہ کیا جادوگری ہے، ٹرینیں وقت پر نہیں پہنچتیں، انجن راستے میں خراب ہو جاتے ہیں، بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے؟ ریل جلنے کے واقعے پر تو آپ کو استعفی دے دینا چاہیے تھا۔ منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں عدالت کے طلب کرنے پر وزیر ریلوے شیخ رشید سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ نے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے پلان طلب کرلیا۔عدالت نے حکم دیا کہ دو ہفتوں میں ریلوے سے متعلق جامع پلان پیش کریں اور شیخ رشید نے عدالت کو دیے گئے پلان پر عمل نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ایم ایل ون کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے، آپ کا سارا کچا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے شیخ رشید سے مکالمہ کیا کہ میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کردیں، جیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت نہیں۔جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ 70لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟ اس پر وزیر ریلوے نے بتایا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیورز کو نکالا، بڑوں کو کیوں نہیں؟ وزیر ریلوے نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جس پر معزز چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ سب سے بڑے تو آپ خود ہیں، بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے، ریل جلنے کے واقعے پر تو آپ کو استعفی دے دینا چاہیے تھا۔جسٹس گلزار کے ریمارکس پر شیخ رشید نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تو میں استعفی دے دیتا ہوں۔شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 14 سال پرانا منصوبہ ہے، اس پر عمل نہیں ہوا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں، ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک اور نہ بوگیاں، ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں زمین دے دیتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا، سرکلر ریلوے ٹریک سے بے گھر ہونے والوں کی بحالی ریلوے کی ذمہ داری ہوگی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمار کس دیے کہ سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پر خالی ہوئی، کراچی میں کالا پل دیکھیں،کیماڑی جائیں دیکھیں کیا حال ہے، ریلوے جا کدھر رہی ہے۔عدالت کی برہمی پر شیخ رشید نے کہا کہ عدالت مہلت دے معیار پر پورا نہ اترا تو استعفی دے دوں گا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے ایم ایل ون کا فنانس کہاں سے لائے گی؟ سالانہ اربوں کا خسارہ ہورہا ہے، اس پر شیخ رشید نے کہا کہ 5 سال میں ریلوے کا خسارہ ختم ہو جائے گا، حکومت پنشن لے لے توخسارہ آ ج ہی ختم ہو جائے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ریلوے کا ہر افسر پیسے لے کر بھرتی کررہا ہے، ایم ایل منصوبہ کیا جادوگری ہے، ٹرینیں وقت پر نہیں پہنچتیں، انجن راستے میں خراب ہو جاتے ہیں، شیخ رشید صاحب بطور سینئر وزیر آپ کی کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہیے تھی، لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن آپ کا ادارہ سب سے نااہل ہے۔سپریم کورٹ نے ریلوے کو دو ہفتوں میں سرکلر ریلوے چلانے کا حکم دیتے ہوئے ریلوے خسارہ کیس کی مزید سماعت 12فروری تک ملتوی کر دی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کہیں توابھی استعفیٰ دے دوں گا ،چیف جسٹس نے ریلوے کی بہتری اوربھلائی کے لیے احکامات دیے ہیں، میں سمجھتا ہوں قوم کے لیے درد اور سوچ عدلیہ کی بھی ہے، ساری قوم کی پریشانی کا بھی عدالت کواحساس ہے۔عدشیخ رشید نے کہا کہ آج چیف جسٹس نے ریلوے کی بہتری اوربھلائی کے لیے احکامات دیے ہیں، چیف جسٹس کی ہدایت پر ریلوے آگے بڑھے گی، ہمیں 15 دن کا نوٹس دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے ہدایت دی ہے کہ ایم ایل ون پرفی الفورٹینڈر دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں قوم کے لیے درد اور سوچ عدلیہ کی بھی ہے، ساری قوم کی پریشانی کا بھی عدالت کواحساس ہے، عدالت کے مشکور ہیں، چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق ریلوے کوآگے لے کرجائیں گے، چیف جسٹس نے جوبھی ہدایت کی ہے اس پرعمل کریں گے۔وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ ہمارے دورکی نہیں، 2013 سے 2017 تک کی ہے، جب ہمارے دورکی آڈٹ رپورٹ آئے گی تواعتراضات کا جواب دیں گے۔ایک صحافی کے سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ چیف جسٹس کہیں توابھی استعفی دے دوں گا، آپ کی خواہش پر نہیں۔
ریلوے کیس