بھارتی متنازعہ شہریت قانون،امریکہ کے 30شہروں میں مظاہرے،یورپی پارلیمنٹ میں 6قراردادیں منظور
واشنگٹن،برسلز،سرینگر(نیوزایجنسیاں)بھارت کے متنازعہ شہریت قانون کیخلاف امریکہ کے 30شہروں میں احتجاج کیا گیا جس میں ہزاروں بھارتی نژاد امریکیوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر سینکڑوں افراد نے جمع ہو کر وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرہ بازی بھی کی۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مظاہرین نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم ملک کے سیکولر آئین کو مجروح کررہے ہیں۔علاوہ ازیں سینکڑوں افراد نے بھارتی سفارتخانے کے سامنے مہاتما گاندھی کے مجسمہ کو گھیر کر احتجاج کیا۔سفارتخانے کے اہلکاروں اور سکیورٹی عملے نے مظاہرین کو مرکزی گزرگاہ کے قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی تاہم مظاہرین کے پرامن طریقے سے آگے بڑھنے پر اسے ترک کردیا گیا۔بھارت میں ہم وطنوں کی طرح واشنگٹن میں بھی مظاہرین اردو شاعری سے متاثر دکھائی دیے اور سفارتخانے کے باہر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ شامل ہونے سے پہلے انہوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر علامہ اقبال کی نظم سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا گائی۔علاوہ ازیں خالصتان کے سیکڑوں حامیوں نے بھی بھارتی سفاتخانے کے باہر مظاہرے میں حصہ لیا۔وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو درخواست دی کہ فروری میں دورہ بھارت کے موقع پر نریندر مودی سے متنازعہ شہریت قانون واپس لینے کا کہا جائے۔انہوں نے امریکی سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو پر زور دیا کہ بھارت کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔دوسری جانب یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں بھارت کے متنازعہ شہریت کے قانون اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں پر بحث اور ووٹنگ کیلئے 6قرارداد یں منظور کرلی گئیں۔751رکنی یورپی پارلیمنٹ میں سے 651اراکین کی غیر معمولی اکثریت نے یہ قراردادیں منظور کی ہیں۔قراردادوں پرآج بحث اور کل ووٹنگ ہوگی، منظوری کے بعد یہ قراردادیں بھارتی حکومت، پارلیمنٹ اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متنازع قانون کے ذریعے بہت بڑی سطح پر لوگوں کو شہریت سے محروم کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ وطن سے محروم ہو جائیں گے۔علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں 178ویں روز بھی جاری فوجی محاصرے اور انٹرنیٹ کی معطلی سے معمولات زندگی متاثر ہیں جبکہ سخت پابندیوں اور شدید سردی نے محصور کشمیریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیاجبکہ مقبوضہ کشمیر میں حریت تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی فوج برصغیر میں جنگی صورتحال پیدا کرنے اورپاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کیلئے کسی قسم کی کوئی جھوٹی کارروائی کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق تحریک حریت جموں وکشمیر، جموں وکشمیر پیپلز لیگ،ینگ مینز لیگ اور دیگر حریت تنظیموں نے سرینگر میں جاری اپنے الگ الگ بیانات میں کہاہے کہ بھارت کی طرف سے اپنے سینئر پولیس اہلکار دیویندر سنگھ کی گرفتاری سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکار مقبوضہ کشمیرمیں پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے2000میں چٹھی سنگھ پورہ میں 35سکھوں کے قتل عام، 2007میں سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں، 2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور2018میں امرتسر میں حملے کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ان تمام کارروائیوں کی منصوبہ بندی بھارتی فوج کے اس وقت کے سربراہوں نے پاکستان اور کشمیری مجاہدین کو بدنام کرنے کیلئے کی۔ جموں وکشمیراسلامی تنظیم آزادی نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں بارہمولہ جیل میں نظربند پارٹی چیئرمین عبدالصمد انقلابی کی گرتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر علیل رہنماء کو علاج معالجے کی مناسب سہولت فراہم نہ کی گئی تو انکی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے امید ظاہر کی ہے کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اورمتنازعہ ترمیمی قانون شہریت کے خلاف یورپی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قراردوں کے بعد بھارت پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ یہ مطالبہ ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے کیا گیا جس کوان کی بیٹی التجا مفتی چلارہی ہیں۔مزید برآں لندن میں ایک سیمینار کے مقررین نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں نسل کشی جاری ہے جہاں قابض بھارتی فورسز کشمیری عوام کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے علاوہ لوگوں کو زخمی، معذور اور بینائی سے محروم کرنے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنارہی ہیں۔ ”جموں وکشمیر کے عوام کے لیے جمہوری نظام“ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام آرگنائزیش آف کشمیر کوئلیشن نے کیا تھا اور اسے دیگر لوگوں کے علاوہ پروفیسر نذیر احمد شال، بیرسٹر عبدالمجید ترمبواورنیشنز ود آؤٹ بارڈرز کے گراہم ولسن نے بھی خطاب کیا۔
مظاہرے/قراردادیں منظور