کارل مارکس نے زندگی کے آخری 10 سال تکلیفوں اور بیماریوں میں بسر کئے

تحریر: ظفر سپل
قسط:105
مارکس کی تیسری بیٹی کا نام ایلینور (Eleanor)ہے۔ سب اسے ”ٹسی“کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ مقرر تھی اور باپ کی طرح جھگڑالو طبیعت کی مالک۔ وہ اس قدر ضدی اور اکھڑ مزاج تھی کہ پولیس والے بھی اس سے دور رہتے تھے۔ 17سال کی عمر میں وہ ایک فرانسیسی صحافی لساگرے سے محبت کرنے لگی اور اس سے منگنی کر لی۔ لساگرے سے اس کے تعلقات 10 سال تک رہے، مگر جب وہ فرانس چلا گیا تو ٹسی ڈیپریشن کا شکار ہو گئی اور منگنی توڑنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک شادی شدہ ڈاکٹر ایڈورڈ ایولنگ کی محبت کا شکار ہو کر اس کے پاس رہنے لگی، مگر جب اسے خبر ملی کی ڈاکٹر ایولنگ نے ایک ایکٹریس سے بھی شادی رچا رکھی ہے تو وہ نہایت صدمے اور ناامیدی کا شکار ہو گئی اور ایک زہریلی شراب پی کر 45 سال کی عمر میں زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس کے جنازے میں بھی یورپ کے مزدور لیڈروںنے شرکت کی۔
مارکس کی ایک بیٹی فرانسسکا اور 2 بیٹوں ایڈگر اور ایڈورڈ کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ فرانسسکا سال بھر کی ہوئی تھی کہ مر گئی۔ ایڈورڈ نمونیے کا شکار ہو کر پیدائش کے چند دنوں بعد مر گیا اور بڑا بیٹا ایڈگر 7 سال کی عمر میں داغ مفارفت دے گیا۔ اسے وہ پیار سے ”کرنل مش“ کے نام سے پکارتے تھے۔ مش پیدائش سے ہی معذور تھا، مگر وہ بڑا پیارا بچہ تھا۔ اس کی پیشانی کشادہ تھی اور آنکھیں بڑی بڑی۔ سر کمزور جسم کی مناسبت سے ذرا بڑا تھا۔
مارکس نے زندگی کے آخری 10 سال تکلیفوں، بیماریوں اور بیماریوں کے علاج معالجے کی دوڑ دھوپ میں بسر کئے۔ اسے شدید کھانسی، چھینکوں، سینے کی تکلیف اور جگر کا عارضہ لاحق تھا۔ شدید سر درد علیIحدہ پریشان رکھتا اور پھر بے خوابی نے اسے اعصابی طور پر بے حال کر دیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بے خوابی کے لیے کلورل کی بھاری خوراکیں تجویز کیں اور دوسرے عوارض کے لیے انگور کی شراب۔ اسے دماغی محنت سے منع کیا گیا اور ہدایت کی گئی کی وہ باقاعدگی سے ناشتہ کرے اور لمبی سیر کو معمول بنا لے۔ ان عوارض کے ساتھ ساتھ ایک اور تکلیف دہ چیز جسم پر پھوڑوںکا مسئلہ تھا۔ اس کی رانوںاور بغلوں پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ صحت کے ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس نے3 بار صحت افزا ءمقام کارلز بیڈ(Carlsbad)کا سفر کیا۔ یہاںوہ ایک ہوٹل جرمینا میں قیام کرتا تھا۔ انہی دنوں مشہور روسی ناول نگار ترگنیف بھی یہاںٹھہرا ہوا تھا۔ شاید ان کی آپس میں ملاقات ہوئی ہو۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق وہ صبح 5بجے اٹھتا، مختلف چشموں پر جا کر6 گلاس پانی پیتا۔ پھر ناشتہ کرتا اور سیر کے لیے نکل جاتا۔ دوپہر کو باقاعدگی سے 2گھنٹے قیلولہ کرنے کے بعد پہاڑوںکی سیر کے لیے نکل جاتا۔ اس روٹین سے اسے خاطر خواہ افاقہ ہوا۔ اس کی صحت بہتر ہونے لگی اور سردرد میںبھی کی آ گئی۔ یہ دیکھ کر مارکس واپس گھر آگیا۔
اب دوسرے مسئلے نے سر اٹھایا۔ اب جینی بیمارپڑ گئی۔ اسے پیٹ کا کینسر تھا پھر ایک دن وہ انتقال کر گئی۔ یہ 2دسمبر1881ءکی بات ہے، وہ ایک مادیت پرست کی موت مری۔ مرتے وقت وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھی۔ جب آخری وقت آن پہنچا تو اس نے کہا ”کارل، اب میری طاقت ختم ہو رہی ہے“۔ اسے ہائی گیٹ قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ جینی کی موت پر مارکس کو نہایت افسردہ دیکھ کر اینگلز نے بے ساختہ کہا:
جینی کی موت کے ساتھ ہی ”مور“بھی مرگیا!
اب وہ ایک دل شکستہ آدمی تھا۔ دکھ نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا تھا۔ ساری بیماریاں واپس عود کر آئی تھیں اور اب وہ سونے کے لئے افیون کی گولی کھاتاتھا۔اب ڈاکٹروں نے یہ تجویز پیش کی وہ کسی گرم علاقے میں چلا جائے۔ اینگلز نے اس مقصد کے لیے الجیئرز(Algiers)کا نام تجویز کیا، جو ایک افریقی مسلمان ملک الجیریا (Algeria)کاصدر مقام تھا اور اس وقت ایک فرانسیسی کالونی۔ مارکس کو یہ تجویز پسندآئی۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔