یہ وہ دور تھا جب آپس کا بھائی چارا اپنے عروج پر تھا اور نفرتوں کی ملاوٹ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:1
ابتدائیہ
کراچی کا نام ذہن میں آتے ہی میرا سرفخرسے بلند ہو جاتا ہے اور دل فرط عقیدت سے بھر جاتا ہے۔ اور ایسا ہو بھی کیوں نا، کہ یہی وہ عظیم شہر ہے جہاں بڑے ناز نعم سے میری پرورش ہوئی، اس کی گلیوں میں گھوم پھر کر بڑا ہوا اورجب عقل و شعور نے آنکھیں کھولیں تومجھے بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے دنیا کے سرد و گرم چکھنے کے لیے تیار کیا اور پھر یہیں سے میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔تب یہ شہر پرسکون اور امن و شانتی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔
اس کتاب کا ابتدائی حصہ تو میں نے اپنے بچپن کی یاد داشتوں اور کچھ سُنی سنائی مگر قابل اعتبار باتوں کے بل پرہی لکھ ڈالا ہے، لیکن بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سمجھ دار اورتھوڑا بہت تعلیم یافتہ بھی ہو گیا تھا ۔ لہٰذا اس کے بعدکراچی کے بارے میں جو بھی تحریر کیا وہ میرے اپنے چشم دید حالات و واقعات ہیں جو میں نے وہاں رہ کر دیکھے اور محسوس کیے۔ زیادہ تفصیل میں جانے پر حافظہ کچھ دھوکہ تو دے سکتا ہے مگر عمومی حالات وہی تھے جو میں نے بیان کیے ہیں۔میں عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزار چکا ہوں ، یاد داشت بھی اب کچھ لڑکھڑا سی رہی ہے اور اکثر دھوکہ دینے کے مواقع تلاش کرتی رہتی ہے۔تب میں اسے کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑدیتا ہوں۔ پھر جب وہ لوٹ آتی ہے تو ماضی کے دریچے ایک بار پھر سے کھل جاتے ہیں، جہاں سے میں اپنے اس خوبصورت شہر کی خوب صورت گلیوںاورحسین یادوں میں جھانکتا رہتا ہوں۔ کوشش کی ہے کہ کہیں کچھ غلط بیانی نہ ہونے پائے، اگر بدقسمتی سے ایسا ہو ہی جائے تو اسے میری کوتاہی اور کم علمی سمجھ کر نظر انداز کردیجئے گا،یقین جانئے مجھے غلط معلومات دینے پر بے حد ندامت ہوگی۔
ایک اور بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ یہ کراچی کے حوالے سے خالصتاً تاریخ ، جغرافیہ یا سیاحت کی کتاب نہیں ہے ۔ اس لیے اکثر حالات میں جہاں کہیں بھی سرِ راہ چلتے چلتے کوئی خاص مقام، کوئی بات ےا کوئی واقعہ ےاد آیا میں نے اسے بلا تردد ، وہیں تحریر کر دیا جہاں سے یہ منسوب ہے۔ اس بات کا ذرا بھی انتظار نہیں کیا کہ آگے چل کراسے کسی خاص باب میں ہی شامل کیا جائے۔ البتہ جہاں کہیں بھی ممکن ہوا ،ایک جیسے موضوعات کو ایک ہی باب میں یکجا کردیا گیا ہے۔آپ میرے اس اندازِ تحریرسے پریشان ہونے کی بجائے لطف اندوز ہوں کیونکہ اس میں پرانی فلموں کی طرح کئی کہانیاںایک ساتھ ہی سفر کرتی رہیں گی۔بیان کیے گئے واقعات کا آپس میں ربط تلاش نہ کرنے بیٹھ جایئے گا۔ کچھ ہاتھ نہیںآنے والا!
دوسری بات جس کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ ےاد داشتیں ایک طویل عرصے، یعنی 20 سے زائید برسوں پر بکھری ہوئی ہیں ۔ قدرتی بات ہے کہ اس دوران میری عمر کے ساتھ ہی بہت سا پانی بھی حب ندی کے پلوں کے نیچے سے بہتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ اس دوران کراچی اور اس کے حالات میں بھی بتدریج بڑی تبدیلیاں آتی رہیں اور آگے چل کر تو سب کچھ ہی بدل گیا تھا۔ میں نے صرف ان ایام ہی کو اپنا موضوع بنایا ہے جب بھولا بھالا اور صاف ستھرا ساکراچی ابھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا تھا اور یہاں بے پناہ پیار، محبت اور خلوص کے سوتے پھوٹتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب آپس کا بھائی چارا اپنے عروج پر تھا اور اس میں نفرتوں کی ملاوٹ ابھی شروع نہیںہوئی تھی اور نہ ہی معاشرے میں عدم رواداری جیسی کوئی چیز ہوا کرتی تھی ۔ سب ہی ایک دوسرے کو نہ صرف بخوشی قبول کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے کا بے حد خیال بھی رکھتے تھے۔ کراچی روشنیوں کے ساتھ ساتھ محبتوں کا شہر بھی کہلاتا تھا۔ غریب پرور تو یہ شروع ہی سے تھا لیکن پُرسکون بھی بہت تھا۔ تب جو کوئی بھی یہاں آتا تھا، پھر یہیں کا ہو رہتا ۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )