سیکیورٹی اور قتل کا نیا الزام! 

 سیکیورٹی اور قتل کا نیا الزام! 
 سیکیورٹی اور قتل کا نیا الزام! 

  


یہ سیکیورٹی کا معاملہ بھی عجیب ہے اجمالی جائزہ بھی لیا جائے تو اب تک حاضر اور ریٹائرڈ حق دار سیکیورٹی والوں کی تعداد اتنی ہے کہ سیکیورٹی اہلکار پورے ہی نہیں کئے جا سکتے۔ پنجاب میں قائم کی گئی ایلیٹ فورس کے بارے میں تو پہلے ہی سے یہ خبریں ہیں کہ یہ اہلکار اپنے اصل کام کو تو بھول ہی گئے اور سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس فورس کے استعمال کے ساتھ ہی مقامی پولیس، رینجرز اور ایف سی کے جوان بھی اس ”فریضے“ میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے برسر اقتدار حضرات کا معاملہ الگ نوعیت کا ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے سیکیورٹی کم کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے۔ قواعد و قوانین کے مطابق صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی سیکیورٹی متعین ہے حتیٰ کہ جب یہ حضرات سابق ہوں تو بھی ان کے لئے مخصوص سیکیورٹی کی اجازت ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ برسر اقتدار ہوتے ہوئے تو تمام دعوے وعدے بھلا دیئے جاتے اور مختلف عوامل بنا کر سیکیورٹی میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے حالانکہ اس حوالے سے قواعد میں صراحت موجود ہے۔


گزشتہ دو دنوں کے دوران بیک وقت دو خبریں ”فلیش“ ہوئیں ہر دو کا تعلق تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان سے ہے ایک خبر تو یہ ہے کہ بنی گالا سے ایف سی اور کے پی کے پولیس کے جوانوں کو واپس بلا لیا گیا جن کی تعداد 170 تھی زمان پارک کے حوالے سے واپسی والی اطلاع تو نہیں لیکن یہ خبر ضرور نشر ہوئی کہ پنجاب حکومت نے خیبرپختونخوا حکومت کو خط لکھا ہے کہ زمان پارک سے ان تمام ملازمین کو واپس بلایا جائے جن کا تعلق خیبر سے ہے اور وہ سیکیورٹی کے حوالے سے زمان پارک میں متعین ہیں۔ ان احکام یا اطلاعات کے پس منظر کے ساتھ تحریک انصاف کے راہنماﺅں نے احتجاج شروع کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ عمران خان نہ صرف سابق وزیر اعظم ہیں بلکہ ایک بڑی اور مقبول پارٹی کے سربراہ ہیں ان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ان کو حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے تحفظ فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اس کے ساتھ ہی خود میڈیا سیل کی طرف سے یہ خبر بھی دی گئی کہ تحریک انصاف نے سو افراد پر مشتمل ایک سیکیورٹی گروپ بنانے کا فیصلہ کیا جماعت کے یہ کارکن 24 گھنٹے اپنے راہنما کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائیں گے یوں یہ ایک نیا تنازعہ پیدا ہوا ہے۔


اسی روز محترم کپتان نے معمول کے اپنے خطاب کو اس وقت سنسنی خیز بنا دیا جب انہوں نے یہ کہا کہ ان کو راستے سے ہٹانے کے لئے اب منصوبہ ”سی“ شروع کیا گیا کہ پہلے دو تو ناکام ہو چکے اب تیسرے کے لئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اور چار دوسرے افراد نے منصوبہ ”سی“ شروع کیا جس کے لئے آصف علی زرداری نے دہشت گرد تنظیم کو ان (عمران) کی سپاری دی ہے کہ ان کو راستے سے ہٹایا جائے اس پلان سی میں چار دوسرے افراد بھی شامل ہیں۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ انہوںنے ویڈیو ریکارڈ کر کے حفاظت کے لئے رکھوا دی ہے محترم کپتان کا یہ کہنا محاذ آرائی میں مزید شدت کا باعث بن گیا کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے اس الزام کے جواب میں شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ سے نوٹس لے کر تحقیقات کا مطالبہ کیا اور بعد ازاں جماعتی سطح پر یہ بھی طے کیا گیا کہ عمران خان کو قانونی نوٹس دیا جائے گا کہ انہوں نے بے بنیاد الزام لگا کر توہین کی۔ پارٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ خان صاحب نے اس طرح فساد کرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ ان کا کوئی بھی ماننے والا کسی وقت حملہ بھی کر سکتا ہے قمر زمان کائرہ نے ابتدائی طور پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ حد سے گزر گئے ہیں اور اب جواب تو دینا لازم ہے۔


تحریک انصاف کے چیئرمین نے یہ نیا ایشو چھیڑ کر سنسنی پھیلا دی اور سیاسی محاذ آرائی کو مزید بھی بڑھا دیا ہے ابھی تو فواد چودھری کی حراست کا سلسلہ چل رہا ہے اور احتجاج ہو رہا تھا کہ خان نے اپنے بارے میں بات کر کے اسے اور دو آتشہ بنا دیا ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت ہوا جب صدر مملکت ڈاکٹر علوی لاہور آکر خان صاحب سے ملے اور ان کے ساتھ اہم معاملات پر بات چیت کی جس کے بعد انہوں نے میڈیا سے تفصیلی بات کر کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عمران خان سے مذاکرات کی بات ہوئی وہ کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ صدر مملکت نے خواہش ظاہر کی تھی کہ جلد انتخابات کے مطالبات میں سے فوری نکال کر بات چیت کرلی جائے، صدر کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی صدر کی اس گفتگو کے بعد ہی محترم عمران خان نے میڈیا سے خطاب کے دوران اپنے قتل کے منصوبے کا سنسنی خیز انکشاف کر ڈالا۔


ملک میں پہلے ہی محاذ آرائی کے باعث افراتفری ہے معیشت سنبھل نہیں پا رہی اور اب ایک طرف آئی ایم ایف کے دباﺅ پر ڈالر آزاد کیا گیا تو ایک نئے بحران کا سامنا ہوا ڈالر ایک ہی روز میں 25 سے 30 روپے تک بڑھ گیا جس سے مہنگائی کے طوفان کی آمد آمد ہے، پہلے ہی اشیاءخوردنی اور ضرورت بساط سے باہر ہو چکی ہیں۔ اب مزید ہوں گی تو سفید پوش کیا کریں گے ایسے میں ضمنی انتخابات اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ہر دو صوبوں میں بھی انتخابات متوقع ہیں اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر سنگین الزام لگا دیا گیا ہے اس سے پارٹی کے اندر اشتعال پیدا ہونا اور بڑھنا لازم ہے یوں کشیدگی کی فضا بڑھ گئی ہے اسے کم کرنا لازمی امر ہے۔
جہاں تک خان صاحب کے الزام کا تعلق ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں لگائے جاتے رہے ہیں حتی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا ذکر بھی ہوا اور ان کی طرف سے ایک تفصیلی خط بھی تحریر کر کے امریکہ میں رکھوایا گیا۔ اس میں جن حضرات کے نام تھے ان میں سے ایک صاحب پیپلزپارٹی کی حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے عمران خان تو یوں بھی وزیر آباد کے سانحہ کے بعد سے ابھی تک زمان پارک میں مقیم رہ کر ہی سیاست کر رہے ہیں کارکن ہمہ وقت موجود رہتے ہیں اور اب تو شاہ محمود قریشی نے کارکنوں اور راہنماﺅں کو باقاعدہ زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔
معاشی حالات کی روشنی میں اور آنے والے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اختلافات کو طاق میں رکھ کر بات چیت اور مذاکرات کا آغاز ہونا چاہئے اور الزام تراشی سے گریز کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -