یہودیت اور عیسائیت سے نفرت کرنے والے مارکس نے کبھی اسلام کیخلاف کچھ نہیں کہا

 یہودیت اور عیسائیت سے نفرت کرنے والے مارکس نے کبھی اسلام کیخلاف کچھ نہیں کہا
 یہودیت اور عیسائیت سے نفرت کرنے والے مارکس نے کبھی اسلام کیخلاف کچھ نہیں کہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ظفر سپل
قسط:106
یہاں آکر اسے اس مشرقی ملک کا حسن اور دلکشی پسند آئی۔ اسے لوگوں کے ڈھیلے ڈالے لمبے لبادے، چہرے کے خدوخال، داڑھیاں، اخلاق اور رکھ رکھاؤ اچھا لگا۔ ان کی مستورات بہت کم گھروں سے نکلتیں اور جب نکلتیں تو سوائے آنکھوں کے باقی جسم کے حصوںکو پوشیدہ رکھتیں۔ وہ اکثر کسی عرب کیفے میں جا بیٹھتا اور لوگوںکی حرکات و سکنات اور باتوںسے لطف اندوز ہوتا، اسے عرب معاشرے کی معاشرتی مساوات نے خاص طور پر متاثر کیا۔ یہاں امیر غریب سب برابر تھے۔ سب کی عزت و تکریم برابر تھی۔ مسجدوںمیں یہ نمونہ عام تھا۔ اسے اسلام کے اقتصادی نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تو درست ہے کہ اسلام نجی ملکیت کی ممانعت نہیںکرتا اور نہ دولت کی مساوی تقسیم چاہتا تھا مگر اس بات کا بھی انتظام کرتا تھا کہ دولت ایک جگہ مرتکز نہ ہو جائے اور نہ ہی ایک حد سے زیادہ بڑھے۔ اس نے زکوٰة اور صدقات کا نظام متعارف کرایا تھا۔ مارکس کو عرب علماءسے بھی ملنے کا موقع ملا، جن سے اس نے اقتصادیات کے موضوع پر باتیں کیں۔ اس سلسلے میں اس کے ایک دوست انور عبدالحمید نے اس کی خاص طور پر مدد کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ”سرمایہ“ میں پیش کردہ اپنے نظریات پر نظرثانی کے بارے میں سوچتا تھا۔ مگر اب وہ بوڑھا ہو چکا تھا، بیماریوں اور صدمات نے اسے تھکا دیا تھا اور اب اس میں سکت نہیں تھی کہ اپنے اقتصادی نظام کا نیا خاکہ تیار کرے۔ اس کے علاوہ اسے اینگلز نے بھی پرزور مشورہ دیا کہ اب جبکہ اس کے نظریات قبول عام کا درجہ حاصل کر رہے ہیں، یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے کہ اس میںکسی ترمیم و اضافے کا اعلان کیا جائے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہودیت اور عیسائیت سے نفرت کرنے والے مارکس نے کبھی بھی اسلام کی مذمت میں ایک نقطہ نہیںکہا۔
خیر، 2مئی کو مارکس الجیئرز سے فرانس واپس آ گیا اور اپنی بیٹی لارا اور داماد لیفارج کے ہاںٹھہرا اور پھر لندن روانہ ہو گیا۔ 11جنوری 1883ءکو اس کی پیاری بیٹی جینی جگر کے کینسر سے مر گئی۔ یہ آخری کاری وار تھا، جو اس نے سہا، مگر اب وہ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا اور اپنی بیٹی کی موت کے بعد وہ صرف2 ماہ ہی جی سکا۔ 14مارچ1883ءکو موت نہایت دبے پاؤں آئی۔ اس دن سہ پہر 3 بجے وہ اپنے کمرے سے اٹھ کر اپنی سٹڈی روم میں آیا۔ ابھی وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ اس تھکے ماندے نابغہ کو موت کی آسودگی نے اپنے بازووں میں لے لیا۔ اس وقت اس کی عمر 64سال تھی۔
مارکس کی تدفین میںلگ بھگ ایک درجن لوگوں نے شرکت کی۔ اسے ہائی گیٹ (Highgate)قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس کی بیٹی ٹسی، لارا اور داماد لیفارج بیماری کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہ کر سکے، مگر اینگلز موجود تھا۔
5اگست1895ءکواینگلزبھی مر گیا۔ اس وقت اس کی عمر 75سال تھی۔ اس نے وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو جلا کر راکھ رودبار انگلستان میں بہا دی جائے ۔ اس کی وصیت پر عمل کیا گیا۔
تو جینی مر گئی!
”مور“ مر گیا!!
اور اینگلز بھی مر گیا!!!
لیکن مارکس کی موت کے کم و بیش نصف صدی بعد تقریباً ایک تہائی دنیا نے اس کے نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -