خودانحصاری:بنیادی ضرورت

خودانحصاری:بنیادی ضرورت
خودانحصاری:بنیادی ضرورت
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کی دنیا میں کسی قوم یا ملک کے لئے خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کر کے زندہ رہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس گلوبل ولیج میں سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور سب سے کسی نہ کسی شکل میں روابط استوار رکھنے پڑتے ہیں۔ البتہ ان تعلقات کو استوار کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور وہ اصول اپنے ملک کے جغرافیائی، مالی، نظریاتی اور دیگر تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کرنا ہوتے ہیں۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ دوسرے ممالک بھی اپنے اپنے تقاضوں کے تحت ہی آپ سے دوستانہ یا مخاصمانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ انگلش میں جسے ”Free Lunch“ کہا جاتا ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا از بس ضروری ہے کہ قوموں اور ملکوں کے تعلقات میں جذبات کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب ہم پاکستان کے اقوام عالم سے تعلقات پر نظر کرتے ہیں تو یہی وہ عنصر ہے جس کی غیر موجودگی، یعنی جذبات کی غیر موجودگی ہمیں دیگر اقوام کے رویوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے اور حقیقت کو آشکار کر سکتی ہے۔
مثلاً کشمیر کے مسئلے پر ہم امریکہ اوریورپ سے یہ توقع رکھتے ہیں اور بار بار ان سے مطالبہ یا درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھارت پر اس مسئلے کے منصفانہ حل کے لئے دباﺅ ڈالیں، لیکن یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کیا ان ممالک کے مفادات انہیں بھارت پر اس قسم کا کوئی دباﺅ ڈالنے کی ترغیب دے سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمیں یہ بات پسند ہو یا نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کے تجارتی، دفاعی اور سیاسی مفادات پاکستان کی نسبت بھارت سے زیادہ ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے میں اگر ان کا کوئی نقصان نہیں تو فائدہ بھی کوئی نہیں تو پھر وہ بلاوجہ بھارت پر دباﺅ ڈال کر اس سے اپنے تعلقات کو کسی امتحان میں کیوں ڈالیں؟ لہٰذا یہ سوچ کہ امریکہ یا یورپ اس مسئلے پر کوئی ثالثی کا کردار ادا کریں ،ایک انتہائی احمقانہ سوچ ہے۔
اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس یا جرمنی ہمیں توانائی کی کمی کے مسائل پر قابو پانے میں مدد دیں تو یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اگر ہمارے لوگ توانائی کی کمی کے باعث غربت، بے روزگاری، صحت اور ایسے دیگر مسائل کا شکار ہیں تو یہ ان کا مسئلہ نہیں، اس کا حل ہمیں ہی ڈھونڈنا ہے، خاص طور پر جب خود ہمارے حکمران ہی اس سلسلے میں ایمانداری اور خلوص نیت سے مبّرا نظر آئیں تو کسی کو کیا پڑی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ ہمارے ان مسائل کو حل کرنے کے جتن کریں گے تو اس کے بدلے میں ہم ان کے لئے کیا کریں گے؟ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ تمام تعلقات میں” کچھ لوا ور کچھ دو“ کی بنیاد پر ہیں۔ آج کا سرمایہ دارانہ نظام کسی منافع کے حصول کی گارنٹی کے بغیر .... چاہے وہ منافع مادی ہو یا سیاسی .... ایسی کسی مدد کا روا دار نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس پر آپ دوستی، اتحادی یا انسانی ہمدردی جیسی جتنی مرضی Sugar Coatingکر لیں یہ بہرحال ایک کڑوی گولی ہے اور اس کڑواہٹ سے بچنے کا واحد راستہ خود انحصاری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خود انحصاری ممکن ہے؟ یا ہمیں ہر حال میں یہ کڑوی گولی کھانی ہی پڑے گی؟
یہ خود انصاری بالکل ممکن ہے، ہمارے پاس وسائل بھی ہیں اور قابلیت بھی ہے لیکن ایک تیسرے عنصر کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ کام نیک نیتی اور ایمانداری سے کریں، اس تیسرے عنصر کا ہمارے ہاں فقدان ہے اور یہی ہمارے مسائل کی وجہ ہے، ہماری قوم میں صلاحیت ہے لیکن اس صلاحیت کو بروئے کار لانے میں جس جانفشانی، تحقیق، محنت اور لگن کی ضرور ت ہے وہ غائب ہے، جتنا وقت ہم اپنے بچوں کو ”سائنس پر مسلمانوں کے احسانات پڑھانے میں ضائع کرتے ہیں اتنا اگر ہم بچوں کو سائنس پڑھانے پر صرف کرتے تو آج ترقی یافتہ اقوام میں شامل نہ ہونے کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ جتنا سرمایہ ہم اپنے بچوں کو مغربی ممالک کی مشہور یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوانے پر خرچ کرتے ہیں جس کے بعد وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو پاکستان میں خرچ کرنے کی بجائے وہیں استعمال کرتے ہیں، اتنے سرمائے سے ہم اگر یہاں اعلیٰ درجے کی درسگاہیں، جہاں تعلیم اور تحقیق کا کام ہو سکے، قائم کرنے میں خرچ کرتے تو آج یہاں بھی آکسفورڈ اور ہاورڈ جیسے کئی ادارے ہوتے ہیں۔اسی طرح مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی غیر حقیقت پسندانہ اور کسی بھی لوجک سے ماوراءنظر آتے ہیں۔
 اس حقیقت کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے کہ تقریباً تمام عرب ملکوں کے تعلقات ہماری نسبت بھارت سے زیادہ قریبی ہیں اور وہ ہماری خاطر بھارت کونا راض کبھی نہیں کریں گے، جبکہ ہم نے بلاوجہ ان کے تمام دشمنوں کو اپنا دشمن ڈیکلیئر کر رکھا ہے۔ اگر اس کی وجہ مقامات مقدسہ کی وہاں موجودگی ہے تو پھر اس فارمولے کے تحت سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو پاکستان کے لئے کٹ مرنا چاہئے کہ ان کے تمام مقامات مقدسہ پاکستان میں ہیں۔ اگر اس لئے کہ وہ عرب ہیں تو ان دو نکات کو ذہن میں رکھیں کہ ابوجہل بھی عرب تھا اور کفار مکہ بھی عرب تھے اور دوسرا نکتہ یہ کہ جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرما دیا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر فوقیت نہیں، ماسوائے تقویٰ کے تو پھر کسی اگر مگر کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔بہرحال اگر ہمیں مسائل کے اس اندھے کنوئیں سے نکلنا ہے تو دو باتوں کا اہتمام از حد ضروری ہے۔ نمبر ایک.... خود انحصاری اور نمبر دو.... دیگر اقوام کے ساتھ غیر متوازن تعلقات پر از سر نو غور و خوض کرکے انہیں باہمی احترام کے لیول تک لانا اور کبھی امریکہ اور کبھی عربوں کی کاسہ لیسی سے نجات حاصل کرنا۔ ورنہ اس ذہنی اور سیاسی غلامی کے ہوتے ہوئے ہمیں یوم آزادی کے جشن منانے کا کوئی حق نہیں۔

مزید :

کالم -