پاکستانی صحافت کا امام مجید نظامی

پاکستانی صحافت کا امام مجید نظامی
 پاکستانی صحافت کا امام مجید نظامی
کیپشن: pic

  

اپنی کتاب” صحافتی اخلاقیات“ جب مجید نظامی صاحب کی خدمت میں پیش کی تو میرا ہاتھ کافی دیرتک انہوں نے تھامے رکھا۔ فرمانے لگے: ” اس چیز کی اس وقت بہت ضرورت ہے“۔ عرض کیا ،”نظامی صاحب! اس کتاب کا پروگرام اس وقت کرواﺅں گا جب آپ اس کی صدارت فرمائیں گے “۔ جواب میں انہوں نے سر ہلا کر حامی بھرلی۔ یوں تو ان سے بہت سی ملاقاتیں رہیں، لیکن یہ ملاقات اور مکالمہ میرے لئے ان کی حسین ترین یادوں کا سرمایہ ہے۔

2007ءمیں جرمنی جانے سے قبل بڑی خواہش تھی کہ نظامی صاحب سے ضرور ملاقات ہو۔ ”نوائے وقت “ کے پرانے دفتر میں حاضر ہوا تو ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔ جاتے ہوئے ضمیر نیازی مرحوم کی ایک کتاب ”Fattered Freedom“ پر لکھاتبصرہ ساتھ لے گیا اور ان کی خدمت میں شائع کرنے کی غرض سے پیش کیا۔ ان چار صفحات کو الٹتے پلٹتے ان کی نظراچانک کراچی کے ایک نامور انگریزی کالم نگار (مرحوم) کے نام پر پڑ گئی ۔ ضمیر نیازی نے اپنی کتاب میں ان کا تذکرہ توصیفی انداز میں کیا تھا۔ مجید نظامی صاحب کہنے لگے کہ آپ کا یہ تبصرہ نما مضمون شائع نہیں ہوسکتا۔ مَیں نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف جب حیرت سے دیکھا تو فرمانے لگے کہ ” ان پارسیوں نے تمام عمر قائداعظمؒ کو معاف نہیں کیا، اس لئے مَیں بھی ان کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوں“۔ یہ میرے لئے ایک تاریخی انکشاف تھا ۔

سن تو رکھا تھا کہ نظامی صاحب اپنی بات پوری بے باکی اور جرا¿ت رندانہ کے ساتھ کہنا جانتے ہیں اور عہد حاضر کے سب سے بڑے ایڈیٹر ہیں، لیکن اس کا عملی مظاہرہ اس روز اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا اور کانوں سے بھی سنا۔ بانی ¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سے ان کی اٹوٹ وابستگی کا بھی بخوبی اندازہ ہوا۔ ان کی اس نظریاتی کمٹ منٹ پر اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے اس مضمون کے شائع نہ ہونے کا قطعاً افسوس نہ ہوا۔ انہی دنوں ”نوائے وقت“ میں میرا سفر نامہ جرمنی مسلسل شائع ہورہا تھا اور نظامی صاحب کی سرپرستی اور شفقت کا دریا بہتا چلا جارہا تھا۔ مجھے یاد ہے جس عرصے میں وہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹر (سی پی این ای) کے صدر ہوتے تھے، مالکان کی ان صحافتی تنظیموں کے سالانہ اجلاسوں میں اکثر حاکم وقت مہمان خصوصی ہوتے تھے۔ ان کے سامنے مجید نظامی جس طرح کلمہ ¿ حق کہتے تھے،کسی اور ایڈیٹر کو اس انداز میں حق گوئی کی توفیق اور ہمت نہیں ہوتی تھی۔ نظامی صاحب کی وہ تقاریر پاکستان میں آزادی¿ صحافت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں:

لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

کئی بار ان کے اخبار کے اشتہارات بند ہوئے، لیکن ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ادارہ¿ نوائے وقت ترقی کی منازل بھی طے کرتا چلا گیا ۔ انگریزی روزنامہ ”دی نیشن “اور دیگر رسائل وجرائد کے علاوہ ”وقت“ نیوز چینل کی وجہ سے یہ ادارہ ایک بڑی صحافتی سلطنت بن چکا ہے۔ ڈیلی نیشن کے مندرجات تو آغاز سے ہی ماڈرن اور پروگریسو رہے ہیں ،جبکہ ”نوائے وقت“ اسلام، پاکستان، قائداعظمؒاور علامہ اقبال ؒ کے افکارو نظریات سے محبت رکھنے والوں کا ہمیشہ محبوب اخبار رہا ہے۔ اس کا ایک خاص حلقہ ¿ قارئین رہا ہے۔ بالخصوص وہ پاکستانی جنہوں نے پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا تھا۔ جو آگ اور خون کے دریا پارکرکے اس مٹی کی محبت میں یہاں پہنچے تھے۔ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی۔ بانی ¿ نوائے وقت حمید نظامی اور ان کے جانشین جناب مجید نظامی کو اپنے حلقہ ¿ قارئین کی نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی ضرورتوں کا ہمیشہ خیال رہا۔ قدرت نے ڈاکٹرمجید نظامی کو ان امور کی نگہبانی کا نصف صدی سے زائد عرصے تک موقع عطا کئے رکھا۔ اسی حلقہ ¿ قارئین کے بیشتر افراد 26جولائی 2014ءکی صبح ان کے جنازے میں نظر آئے۔ اپنی علالت اور ضعیف العمری کے باوجود وہ اپنے فکری اور نظریاتی رہنما کے لئے نذرانہ عقیدت کے لئے پہنچے تھے۔ یہ سبھی مناظر دیکھنے کے بعد کئی محبان ”نوائے وقت“ کے ذہن اور لبوں میں ایک ہی سوال دبا ہوا محسوس ہوا کہ اب اس صحافتی سلطنت کا فکری اور نظریاتی وارث کون ہوگا؟

اس تلخ سوال کا مسکت جواب تو آنے والے حالات ہی دے سکتے ہیں۔ ہمیں تو اس وقت آسمان صحافت کے اس درخشندہ آفتاب کا مزید تذکرہ کرنا ہے، جس کی چھوڑی ہوئی زندگی کی رمق برسوں تک صحافت کی وادی¿ پُرخار میں وارد ہونے والوں کی رہنمائی کرتی رہے گی اور جس آفتاب کے ڈوب جانے کے بعد بھی اس کی چھوڑی شفق لاکھوں گم کردہ راہ لوگوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ وہ آسمان صحافت پر چمکتے دمکتے رہے، وہ واقعی پاکستانی صحافت کے حقیقی امام تھے۔پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ علوم ابلاغیات (شعبہ¿ صحافت) کے امور میں بھی مجید نظامی صاحب گہری دلچسپی لیتے رہے۔ گزشتہ آٹھ دس برسوں میں وہ کئی مرتبہ یہاں تشریف لائے، بالخصوص مولانا ظفر علی خانؒ کی برسی کے حوالے سے اکثر پروگراموں میں وہ تشریف لاتے رہے اور اپنی سرپرستی اور خصوصی شفقت سے نوازتے رہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران ہمیشہ ان کے استقبال کے لئے خود پہلے موجود ہوتے۔

 ڈاکٹر مجاہد کامران کی سربراہی میں یکم اکتوبر 2012ءکو جب پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے مجید نظامی صاحب کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی تو یہ دن نہ صرف نظامی صاحب کے لئے بلکہ پنجاب یونیورسٹی کے لئے بھی اہم ترین دن قرار پایا۔ اس روز میدان قرطاس وقلم کے عظیم سپہ سالار کی فنی خدمات کا اعتراف عظمت کیا گیا....کیسا عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے مجید نظامی پاکستان بننے کی اسلامی سالگرہ یعنی 27رمضان المبارک کی مبارک اور تاریخی شب نہ صرف پاکستان، بلکہ اس جہان فانی کو خیر باد کہہ گئے۔ خدا ان کی قبر کو نورسے بھردے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز کردے۔ ان کی شخصیت کا وقار، تمکنت ، جاہ وجلال اور خوبصورتی یاد آتی ہے اور بڑے بڑے افراد کو ان کے سامنے دم بخود ہوتے دیکھا تھا۔ دوسری طرف جب مجید نظامی صاحب کو اپنی ہی ذات میں گم، لیکن طویل ترین سفر طے کرکے یہاں تک پہنچتے دیکھتے تو یوں لگتا کہ منیر نیازی نے یہ شعر ان کے لئے ہی لکھا تھا کہ :

کل دیکھا اک آدمی، اٹا سفر کی دھول میں

گم تھا اپنے آپ میں، جیسے خوشبو پھول میں

مزید :

کالم -