سیاسی عمل آگے بڑھ رہا ہے
ہمیں زندگی ایک سبق دیتی ہے کہ حالات جو بھی ہوں، کاروبارِ زندگی چلتا رہتا ہے، کاروان اور قافلے بھی کبھی نہیں رکا کرتے وہ بھی چلتے رہتے ہیں۔ عالمی جنگوں کے دوران کروڑوں لوگ مر گئے، لیکن نظام چلتا رہا، ہماری اپنی ہوش کے دوران ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سال جنگ چلی، لیکن دونوں ملکوں کے کاروبارِ زندگی اور امورِ مملکت اسی طرح چلتے رہے۔ افغانستان پر روسی قبضے کے دوران جہاد ہو، روسی انخلا کے بعد آپس کی خانہ جنگی یا بعد میں طالبان کا دور ہویا اس کے بعد امریکی مداخلت یا قبضہ ہو، افغانستان اور وہاں کے باشندے وہیں کے وہیں ہیں اور اسی طرح اپنے اپنے کام اور ملکی امور چلا رہے ہیں۔ داعش کے زیرِ قبضہ علاقے کے دارلحکومت رقّہ میں بازار، سکول اور ٹرانسپورٹ بھی اسی طرح چلتی ہے، جیسے اس سے پہلے تھی۔ اس طرح کی سینکڑوں ہزاروں مثالیں دنیا کے ہر خطے سے دی جا سکتی ہیں، اس لئے اگر کوئی لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ اس کا سیاسی قد کاٹھ اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ وہ جب چاہے ملک کو جام کر سکتا ہے تو اسے اس کی خام خیالی ہی کہا جا سکتا ہے۔
میں جب پاکستان کے تازہ ترین سیاسی حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں، امورِ مملکت تو ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات ہوگئے، جس میں مسلم لیگ نواز نے تاریخی سویپ کیا اور دو تہائی ہی نہیں، بلکہ تین چوتھائی سیٹیں جیت لیں۔ اب آزاد کشمیر کے نئے وزیر اعظم کے طور پر راجہ فاروق حیدر فاروق کو نامزد کر دیا گیا ہے ، ان کے حلف اٹھانے کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت اور کابینہ اپنے فرائض انجام دینا شروع ہو جائیں گے۔یہ انتخابات بالکل ہی یکطرفہ ثابت ہوئے، جس میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کی طرف سے دھاندلی کا الزام لگانا یا احتجاج کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ کچھ لوگوں نے دھاندلی کے نام پر مظفرآباد میں ایک مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بمشکل ڈیڑھ درجن لوگ اکٹھے کر سکے، البتہ بھارتی میڈیا اور دور درشن نے اسے بہت بڑھا چڑھا کر دکھایا، جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ وہاں کچھ لوگ ہی تھے۔ جس طرح آزاد کشمیر میں جمہوری طریقہ کار کے مطابق تبدیلی ہوئی، اسی طرح صوبہ سندھ میں بھی جمہوری عمل آگے بڑھا اور وہاں کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا اعلان کر دیا۔ سید قائم علی شاہ 49 سال قبل پیپلز پارٹی کے قیام سے ہی اس سے وابستہ ہیں اور پارٹی کے لئے ان کی کمٹمنٹ کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے ، وہ گذشتہ تین دہائیوں سے اقتدار کے مزے بھی لیتے رہے اور تین بار سندھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اب ان کی عمر اور کارکردگی اس قابل نہیں رہی تھی کہ ذمہ داریوں کا بوجھ ان پر رہنے دیا جاتا، چنانچہ ان کی پارٹی نے ان کی جگہ ان سے تیس سال چھوٹے اور کہیں زیادہ متحرک اور تعلیم یافتہ سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔
مراد علی شاہ کے پاس مختلف وزارتیں رہی ہیں اور موجودہ دور میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان ان کے پاس تھا۔ ان کے والد سید عبداللہ شاہ بھی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ مراد علی شاہ نے این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد کیلی فورنیا امریکہ کی مشہور سٹینفورڈ یونیورسٹی سے سٹرکچرل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں، انہوں نے کچھ سال بطور انجینئر ملازمت بھی کی لیکن بالآخر اپنے مرحوم والد کی جگہ سیاست میں آ گئے اور اب وہ صوبہ سندھ کا سیاسی اور جمہوری سفر آگے بڑھائیں گے۔ ایک طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ سندھ اور آزاد کشمیر میں جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف ملک کے آئینی اداروں کی تکمیل بھی ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں صوبوں کے نئے اراکین کی تقرری کا مرحلہ بخوبی طے پانے کے بعد ان اراکین نے اپنے عہدوں کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ پاکستان کے آئین میں ان اداروں کی تشکیل کا ایک طریقہ کار موجود ہے، اسی کے مطابق یہ تکمیل بھی ہوئی ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن کی طرف سے مختلف اعتراضات کا اٹھایا جانا جمہوری روایات کا حصہ ہے اور ہم دنیا میں موجود تسلیم شدہ اور طویل جمہوری تاریخ رکھنے والے ممالک میں بھی سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر کئے گئے اختلافات دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان کا فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے یا پھر عوام اپنا جمہوری حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے انتخابات یا ریفرنڈم میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کے حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کا یہ اہم آئینی ادارہ فعال ہو گیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب اور عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختونخوا کے رکن پر اعتراض کیا ہے۔ اس طرح کے اعتراضات کو میں جمہوری عمل کا حصہ سمجھتا ہوں۔ یہ اختلافات اگر آئینی اور قانونی طریقے سے حل کئے جائیں تو بہتر ہو گا ،کیونکہ اس کے لئے مناسب فورم موجود ہیں، جہاں اعتراض کنندہ اپنی شکایت لے کر جا سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف یا کوئی اور اس آئینی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی ،بلکہ اپنی تمام تر توجہ پارٹی کی گراس روٹ سطح پر تنظیم سازی پر رکھے گی، کیونکہ آئندہ الیکشن میں اگر انہیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اس کے لئے اپنی پارٹی کو منظم کرنا ہو گا، ہر بات پر سڑکوں کا آپشن ضروری وقت پر اس کی افادیت کھو دیتا ہے۔پاکستان میں اپوزیشن کا ایک حصہ جس میں زیادہ تر پاکستان تحریک انصاف شامل ہے، پچھلے تین سال سے احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کر رہی ہے۔
ابھی دو تین روزپہلے ہی ہم نے دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے نیب کے خلاف اسلام آباد میں نیب ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک احتجاجی ریلی نکالی اور چند گھنٹے کا دھرنا دیا۔ اس ریلی میں کارکنوں کی تعداد مایوس کن رہی، وہ زیادہ تر وقت آپس میں ہی دست و گریبان نظر آئے۔ اپنے لیڈروں کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کے چکر میں کارکن ایک دوسرے پر پل پڑتے اور خوب دھینگا مشتی اور مکے بازی ہوتی رہی۔ آزاد کشمیر میں مبینہ دھاندلی کے نام پر نکلنے والی ریلی میں تو بمشکل ڈیڑھ درجن لوگ ہی آئے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اگست اور ستمبر کے مہینوں میں عمران خان کے ساتھ مل کر ایجی ٹیشن کریں گے۔