احتجاج،دھرنے اور ملکی ترقی کا سفر
یورپ کے اکثر ممالک اور برطانیہ میں خصوصاً سادگی بل (Austerity bill ) کے خلاف کہ سادگی ایک فریب ہے، (anti austerity movement ) کے نام پر بڑے بڑے احتجاج اور دھرنے ہوتے رہے ہیں۔ سادگی بل جس سے گورنمنٹ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ،سبسڈیز کے خاتمے اور سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی کرتی ہے، برطانیہ میں 2010 ء سے لے کر 2015 ء تک اس تحریک نے بہت زور پکڑا۔ 2010ء میں برطانوی طالب علموں نے حکومت کی طرف سے ہائر ایجوکیشن اور ٹیوشن فیسوں میں اضافے کے خلاف بہت بڑی تحریک چلائی۔ اس احتجاج میں کنزرویٹو پارٹی کے مرکزی دفتر میں طلبہ داخل ہو گئے اس احتجاج میں پورے ملک کے طلبہ نے حصہ لیا اور یہ احتجاج مارچ 2011 ء تک چلتا رہا۔2009 ء اور 2010ء میں ورکرز اور سٹوڈنٹس نے یونان اور دوسرے یورپی ممالک میں پینشن میں کٹوتی اورایجوکیشن اخراجات میں اضافے کے خلاف بھر پور احتجا ج کیا۔27 نومبر 2010 ء کو آئر لینڈ کے عوام نے سادگی بل کے خلاف بہت بڑا احتجاج کیا۔ مئی 2011ء سے جولائی 2011ء تک مسلسل تین ماہ یونان میں انڈیگنٹ سٹیزن موومنٹ شروع ہوئی ۔ اس میں پانچ لاکھ لوگ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوئے ۔ تین لاکھ لوگ ایک ماہ تک دھرنا دئیے بھی بیٹھے رہے اور اپنے مطالبات منوا کر اٹھے۔ سپین میں 15 مئی 2011 کو M-15 موومنٹ شروع ہوئی جس میں اپوزیشن پارٹی نے دوسری سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر سادگی بل کے خلاف بھر پور احتجاجی تحریک چلائی۔
پاکستانیوں کے لئے یہ بات حیران کن ہوگی اور شائد ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے بھی کہ اس احتجاج ، دھرنوں اور جلوسوں میں پاکستان کی طرح صرف چند ہزار لوگ نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہوتی تھی مگراسلام آباد کی طرح وہاں کے دارالحکومتوں اور اہم شہروں میں نہ تو نظام معطل ہوا اور نہ ہی حکومتیں سر پکڑ کر دن رات اپوزیشن کے احتجاج پر بین کرتی نظر آئیں، بلکہ یہ سٹیزن گورنمنٹ کا معاملہ رہا اور متعلقہ وزارتوں کی حد تک محدود رہا۔دوسرے وزیروں کا اس سے کوئی سروکار نہ تھا اور ان کی وزارتیں اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق فرائض سر انجام دیتی رہیں ۔وہاں ایسا کوئی منظر دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہر وزیر اپنا کام چھوڑ کر اس احتجاج کا نوحہ کرنا شروع کر دے اور کہے کہ میری وزارت بھلا بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کیسے کم کرے یا سرمایہ داروں سے ٹیکس کیسے وصول کرے کہ سڑکوں پر احتجاج ہو رہا ہے ان حکومتوں نے اپنی نا قص کارکردگی اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے کا جواز دھرنوں یا احتجاج کو نہیں بنایا۔
دنیا کے ہر جمہوری ملک میں اپوزیشن کا احتجاج کرنے کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور عوام اپنے مطالبات حکومتوں سے منوانے کے لئے سڑکو ں پر نکلتے ہیں۔ وہاں کے کسی ایم این اے کا یہ فرض نہیں ہوتا کہ وہ وزارتوں کے لئے ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپوزیشن کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دے اور اس کے بیانات سے نکلنے والے بلند شعلے نفرتوں کو ہوا دے کر معالات کو مزید بگاڑتے رہیں۔عوامی احتجاج پر ہمارے ہاں وزیر جو جواز پیش کرتے ہیں وہ بالکل قابل قبول نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں اپوزیشن کے دھرنے اور احتجاج حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں جس سے وہ عوامی دباؤ میں آکر اپنی پالیسیاں بدلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ہمارے ہاں چونکہ عوام کو جمہوری کلچر اور روایات کا علم نہیں اس لئے ہمارے وزیرسادہ لوح عوام کو دھرنوں اور احتجاج کی وجوہات بتا کر انہیں چکمہ دیتے ہیں۔آپ کو یورپ کے کسی ملک کے کسی وزیر کا ایسا بیان یا جواز سننے کو نہیں ملے گا کہ لاکھوں لوگوں کے سڑکوں پر آنے سے ہم نئے پاور پلانٹس نہیں لگا سکے یا ڈیم نہیں بنا سکے۔کوئی وزیر جوش میں آ کر مولا جٹ بن کر اپوزیشن کو شرم و حیا دلاتا نظر نہیں آئے گا، بلکہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے استعفٰی دے کردوسرے کو کام کرنے کا موقعہ دے گا۔
حکومت کا یہ بھونڈا مذاق ہے کہ عوامی احتجاج اور دھرنوں سے ہم اپنی کارکردگی نہیں دکھا پائے۔عوام نہ تو حکومت کو کسی نئے پاور پراجیکٹ سے روک رہے ہیں اور نہ ہی سرمایہ داروں سے ٹیکس اکٹھا کرنے سے، یہ عوامی احتجاج نہ تو خارجہ پالیسی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور نہ ہی صحت و تعلیم کا معیار بڑھانے میں،ان کے لئے کوئی پریشانی ہے۔ ان سے نہ تو روزگا ر کے نئے ذرائع پیدا ہونے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی لاقانونیت، پولیس گردی ،پٹوار کلچر اور کرپشن کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔
دھرنے ،احتجاج اور جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہیں ان سے ملکی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی دنیا کے بڑے سرمایہ داروں کو آپ کے ملک میں اس سے کوئی واسطہ ہوتا ہے کیونکہ ہر پراجیکٹ میں ورلڈ بینک گارنٹی دیتا ہے۔ انہیں صرف دہشت گردی اور لا قانونیت کے مسائل سے خوف آتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا احسن اقبال اکثر فرماتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف آج سی پیک معاہدے پر شور کررہی ہے اس وقت یہ دھرنے میں بیٹھی ہوئی تھی جب ہم اسے فائنل شکل دے رہے تھے تو اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جمہوری حکومتوں میں عوامی احتجاج نظام کا ایک حصہ ہے دوسرے ملکو ں کو فرق لا اینڈ آرڈر کی صورتحال اور دہشت گردی سے پڑتا ہے۔موجودہ حکومت کے پاس اپنے پانچ سالہ دور میں عوام سے کئے گئے وعد ے پورے نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں اور اس کا یہ جواز قابل قبول نہیں کہ دھرنوں اور احتجاج سے وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکی ۔ حکومت کی پوری توجہ ترقیاتی منصوبوں پر ہو نی چاہئے اور ہر مسئلے پر تمام وزیروں اور ایم این ایز کو آستین چڑھا کر میدان میں اتارنے کی بجائے متعلقہ وزیر اور اس محکمے کے دوسرے لوگوں کو اس مسئلے پر ٹی وی ٹاک شوز پر بات کرنے کی اجازت دینی چاہئے تا کہ وزارتوں کی امید لگائے چند جنگجو قسم کے ہر آنے والے نئے شاہ کے زبردستی کے شاہی وفاداروں کی حواس باختہ حقائق سے ہٹ کر گفتگو سے جو عوامی نفرتیں اور جمہوری کلچر میں غیر اخلاقی اقدار جنم لے رہی ہیں انہیں روکا جاسکے۔نئی نسل مہذب روایات اور صبر و تحمل سے گفتگو کرنے کا سلیقہ سیکھ سکے۔