سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ
سندھ اس لحاظ سے ایک مشکل صوبہ بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ کراچی میں امن و امان مکمل گرفت میں نہیں آر ہی ہیں۔ 34 ماہ سے رینجرز بھی پکڑ دھکڑ، تفتیش کے اختیارات رکھنے کے باوجود د ہشت گردی کے واقعات پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں، اپنی کارروائی کر گزرتے ہیں۔ حال ہی میں ڈیوٹی پر موجود دو فوجیوں کو سر بازار نشانہ بنایا گیا۔ رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے علاوہ دائرہ کار میں بھی اضافہ صوبائی حکومت اور رینجرز کے درمیاں تعلقات میں کھنچاؤ کا اس حد تک سبب بنا کہ کراچی میں متعین کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو وزیر اعلی سید قائم علی شاہ سے ملاقات کرنا پڑی۔ گفتگو کی نوعیت کچھ اتنی حساس تھی کہ وزیر اعلی کو دبئی جانا پڑا تاکہ وہاں مقیم پارٹی کے کرتا دھرتا آصف علی زرداری سے ہدایات لی جائیں۔ دبئی میں تو شاہ صاحب کی حکومت کا تختہ ہی الٹ گیا۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ سید قائم علی شاہ کی وابستگی پچاس برس پر محیط ہے۔ وہ کئی مرتبہ حکومتوں کا حصہ بھی رہے ۔ پارٹی پر جب بھی ابتلاء آئی تو وہ ثابت قدمی کے ساتھ اس صف میں موجود رہے جو بھٹو، نے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری نے بنائی تھی۔ ان کی روانگی کے طریقہ کا ر سے سب ہی متنفر ہوئے ہیں۔ انہیں علیحدہ کرنے کے اس سے کہیں زیادہ باادب طریقے ہو سکتے تھے ۔ بہر حال ان کی جگہ مراد علی شاہ کو نامزد کر دیا گیا ہے جو جمعہ کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے اور اپنی کابینہ تشکیل دیں گے۔
سندھ میں جمہوری ادوار ہوں یا غیر جمہوری، وزیر اعلی کی حیثیت ایک ایسے عہدیدار کی رہی ہے جو کبھی وفاق میں حکمرانی کرنے والے وزیر اعظم یا صدر سے احکامات لیتا رہا ہے یا اب پارٹی کے سربراہ کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ سن 1970 سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ ممتاز بھٹو، غلام مصطفے جتوئی، غوث علی شاہ، اختر علی جی قاضی، قائم علی شاہ، آفتاب شعبان میرانی، لیاقت علی جتوئی، عبداللہ شاہ، علی محمد مہر، اور پھر قائم علی شاہ اسلام آباد میں موجود ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا ء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، پرویز مشرف، یا آصف علی زرداری کی ہدایات پر ہی عمل کرتے رہے ہیں۔ قائم علی شاہ کے دور میں انہیں ایک مشکل یہ بھی رہی کہ انہیں وزیر اعلی ہاؤس کے باہر بیٹھے ہوئے وزرائے اعلی کی خواہشات پر بھی من و عن عمل کرنا پڑا۔ آصف علی زرادری کے علاوہ فریال تالپور، اویس مظفر ٹپی، بلاول ، بھٹو زرداری ان بااختیار افراد میں شامل ہیں جو قائم علی شاہ کو احکامات دے کر عمل در آمد کرایا کرتے تھے ۔ علی حسن زرداری جیسے کارندوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جو وزیر اعلی پر حکم چلاتے رہے ۔ وزراء کی تقرری بھی ان کے بس میں نہیں تھی، کئی کی تقرری میں تو ان کی رضا مندی بھی نہیں تھی۔ اسی لئے کوئی بھی وزیر ان کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ وزراء کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ سرکاری محکموں میں سیکریٹری حضرات بھی سفارشوں پر مقرر کئے جانے لگے ، جب ان کی تقرریاں ہو گئیں تو وہ بھی وزیر اعلی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قائم علی شاہ خود بتائیں کہ کہ کون سے وزیر صاحب انہیں خاطر میں لاتے تھے یا ان کی کسی ہدایت پر عمل کرتے تھے ۔ کئی وزراء تو مہینوں اپنے محکمے کے افسران کے ساتھ کوئی اجلاس بھی نہ کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ صرف ایک ہی واقعہ سن لیں۔ وزیر اعلی ہاؤس میں ایک اجلاس تھا۔ فریال تالپور مختلف معاملات میں قائم علی شاہ کی بار بار سر زنش کر رہی تھیں۔ انہیں اس بات پر معتوب کیا جارہا تھا کہ انہوں نے جو کام کہے تھے ، وہ نہیں ہوئے۔ اس اجلاس میں اس وقت کے وزیر سید علی نواز شاہ بھی موجود تھے۔ جب رسمی اجلاس ختم ہو گیا تو علی نواز شاہ نے فریال کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ تو قائم علی شاہ بے چارے پر گرج رہی ہیں لیکن یہ کیا کریں، جن لوگوں کی تقرریاں آپ کی سفارش پر ہوئی ہیں وہ ان کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ فریال کی روانگی کے بعد قائم علی شاہ علی نواز شاہ پر برہم بھی ہوئے کہ تم میری نوکری ختم کرانا چاہتے ہو کیا؟ یہ تھی صورت حال اور خود قائم علی شاہ کی ترجیح۔ لوگ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب کو خود مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ کیا پاکستان کی سیاست میں ایسا رواج یا روایت رہی ہے؟ یہاں جس کو ایک بار باری مل جائے وہ غنیمت جان کر چپکا رہتا ہے خواہ اس کی عزت نفس کو کتنے ہی کچوکے کیوں نہ لگیں ۔ شاہ صاحب تو عمر عزیز کی اس منزل پر کھڑے ہیں جہاں انسان عبادت تو خوف اور خوش دلی کی ملی جلی کیفیت میں کرتا ہے بقایا کاموں میں وہ اگر مگر کا شکار رہتا ہے۔ یہ تو سیاست ہے جسے جوانی میں تو خون پلایا جا سکتا ہے، بڑھاپے میں اس کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی ۔ پیپلز پارٹی سے وابستہ سیاسی عناصر طے کر بیٹھے ہیں کہ انہیں اس گاڑی سے اترنا ہی نہیں جب تک کوئی دھکے دے کر انہیں نہ اتارے۔ سارے لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ پارٹی سے ہیں، پارٹی ان سے نہیں ہے۔ اسی سبب قائم علی شاہ سمیت تمام لوگ اپنے اپنے حلقوں میں منتخب ہونے کے بعد عوام سے کسی قسم کا رابطہ ہی نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی عام لوگوں یا کارکنوں کا کوئی ایسا گروہ نہیں بن پاتا ہے جو ان کی سیاست میں ان کا مدد گار ہو سکے۔ راندہ درگاہ ہونے سے بہتر ہے اسی درگاہ پر بیٹھے رہیں۔ مجاور کے قدموں میں بیٹھے رہیں گے تو کبھی تو زیادہ تبرک دے ہی دے گا۔ سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی اس ملک میں عجیب ہو گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اس سیاست کے لئے کریلا ونیم چڑھا ثابت ہو رہے ہیں۔ پھر پارٹی میں ایک دوسرے پر یہ اعتماد بھی نہیں کیا جاتا ہے کہ کون کس کا مخبر ہے۔
ایسی صورت حال میں مراد علی شاہ وزیر اعلی ہاؤس کے نئے مکیں ہوں گے۔ اس گیلری میں جہاں ان کے والد مرحوم کی تصویر لگی ہو ئی ہے، ان کی تصویر بھی لگ جائے گی۔ اصل سیاست تو یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی تصویر لگ سکے ۔ مراد علی شاہ کو اپنے جارحانہ مزاج اور کام کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہوگی۔ وہ بھی تو قائم علی شاہ کی کا بینہ میں کئی محکموں کے وزیر رہے ہیں۔ ابھی ابھی تو وہ وزیر خزانہ تھے اور محکمہ آبپاشی بھی انہیں ہی بوجوہ دیا گیا تھا ۔ ان کی کارکردگی پر حرف اطمینان تو نہیں دیا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت میں ایمرجنسی (ہنگامی حالات) لگائیں گے ۔ کیا ضرورت ہے کہ ایمرجنسی لگائی جائے۔ ایسے وزراء مقرر کریں جو اپنے محکمے کی کارکردگی کے ذمہ دار ہوں۔ عمومی سیاست کی بجائے ان کا زیادہ وقت اپنی ذمہ داری بنھانے میں گزرے تو نتائج مل سکیں گے ورنہ ایمرجنسی بھی ناکام ہو جائے گی۔ محکمہ تعلیم میں اب تک آصف ٖ علی زرداری کے بہنوئی فضل اللہ پے چو ہو سیکریٹری کی حیثیت سے متعین ہیں، وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ محکموں کے افسران سخت کارروائیوں کے بغیر سدھرنے کے نہیں ہیں۔
قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ان کے دور کے بارے میں عوام فیصلہ دیں گے کہ کیسا دور تھا۔ اس تماش گاہ میں سید بادشاہ صاحب بھی کیا بات کرتے ہیں۔ کون سے عوام، وہ عوام جو اس جمہوری دور میں بھی اپنے تمام جائز حقوق سے محروم رہے۔ شاہ صاحب خود کسی ایک محکمے کا نام لے کر بتائیں کہ اس کی کارکردگی ان کے لئے ہی باعث اطمینان تھی۔ قائم علی شاہ سے قبل کے وزرائے اعلی کسے یاد ہیں اور کیوں یاد رکھا جائے۔ لوگوں کی غرض حال سے ہوتی ہے، ماضی کیا یاد کرنا اور مستقبل کی بات کیوں کرنا۔ اگر حال بہتر نہیں ہے تو کچھ بھی بہتر نہیں ہے۔ قائم علی شاہ کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں کہ ان کا دور کیوں ایک کامیاب دور کہلائے ۔ داخلہ امور، تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، خوراک، یا کوئی اور محکمہ ہو کسی کی کارکردگی قابل تعریف نہیں رہی۔ ہوتی بھی کیوں ؟ وزراء میں سے شائد ہی کوئی ان کی بات سنتا ہو اور عمل کرتا ہو پھر یہاں تو منظورکاکا، ثاقب سومرو، نثار مورائی، سلطان صدیقی ، یا اور لاتعداد ایسے ا فسران اور افراد سرکاری محکموں میں بھرے ہوئے ہیں جو بلوچستان کے گرفتار سابق سیکریٹری مشتاق رئیسانی سے کہیں زیادہ اور بڑے خائن ہیں ۔ بھلا خیانت اور خدمت سا تھ ساتھ کیوں کر چل سکتی ہیں۔