حیوانوں سے اچھائی

حیوانوں سے اچھائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حاجی نذیر احمد انصاری

حُسن اخلاق جس انسان کی سرشت میں شامل ہو کر اس کے جسم و روح کا جزوِ لاینفک بن جائے وہ ہمیشہ سہل خُو، رقیق القلب، نرم پہلو اور تحمل مزاج رہتا ہے اور آدمی تو آدمی، حیوانات و جمادات کے ساتھ بھی اس کا رویہ مشفقانہ اور حسنِ سلوک پر مبنی ہوتا ہے۔
رسول اللہؐ صحابہ کرام کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ مسلمانوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ آپؐ قضائے حاجت کے لئے گئے۔ چند صحابہ ایک جُھنڈی میں داخل ہوئے۔ انہیں ایک چڑیا نظر آئی، جس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ انہوں نے وہ دونوں بچے اٹھا لئے۔ چڑیا اُن کے سَروں پر اُڑنے اور پھڑپھڑانے لگی۔ نبیؐ تشریف لائے اور یہ منظر دیکھا تو دریافت کیا:
’’اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کر دیجئے‘‘۔
ایک دن رسول اللہؐ نے چیونٹیوں کا جلا ہوا بل دیکھا تو پوچھا:
’’اسے کس نے آگ لگائی ہے؟‘‘ ایک صحابی بولے: ’’مَیں نے‘‘۔
’’آگ کے رب کے علاوہ کوئی آگ کا عذاب دے، یہ مناسب نہیں‘‘۔
آپ نے ناراض ہو کر فرمایا:
رسول اللہؐ کی نرم خوئی ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ وضو کرتے اور کوئی بلی آجاتی تو آپ برتن اس کے آگے کر دیتے، وہ سیر ہو کر پیتی اور آپ اُس کے جھوٹے پانی سے وضو کرتے‘‘۔
ایک روز رسول اللہؐ کا گزر ایک آدمی کے پاس ہے جس نے ایک بکری کو زمین پر لٹا کر اوپر پاؤں رکھا ہوا تھا اور اسی حالت میں چھری تیز کر رہا تھا۔ بکری کی نظر چھری پر تھی۔ رسول اللہؐ نے اسے دیکھا تو سخت غصے میں فرمایا:
’’آپ اسے کتنی بار مارنا چاہتے ہیں؟ اسے لٹانے سے پہلے چھری تیز کیوں نہیں کر لی؟‘‘
ایک روز رسول اللہؐ دو آدمیوں کے پاس سے گزرے جو اپنے اپنے اونٹوں پر سوار گپ شپ میں مصروف تھے۔ آپ کو اونٹوں پر رحم آیا۔ آپ نے سواریوں کو کُرسیاں بنا کر بیٹھ رہنے سے روک دیا، یعنی بوقت ضرورت جانوروں پر سواری کی جائے۔ سفر تمام ہو تو انہیں سستانے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔
آپ نے سواری کے منہ پر نشان لگانے سے بھی منع کیا ہے۔
نبی کریمؐ کے پاس ایک اونٹنی تھی۔ اس کا نام عضباء تھا۔ مشرکین نے مدینہ کے نواح میں چرتے مسلمانوں کے چند اونٹوں پر ہلہ بول دیا اور انہیں ہانک کر لے گئے۔ عضباء بھی انہیں میں تھی۔ انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی گرفتار کیا اور ساتھ لے گئے۔ راستے میں جہاں کہیں بھی وہ پڑاؤ کرتے اونٹوں کو چرنے کے لئے چھوڑ دیتے۔ ایک منزل پر انہوں نے پڑاؤ کیا۔ رات کو سب سو گئے تو عورت نے بھاگنے کی کوشش کی۔ سواری کے لئے اسے کسی جانور کی ضرورت تھی۔ وہ اونٹوں کی طرف آئی۔ جس اونٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتی وہ چلا اُٹھتا۔ وہ اس ڈر سے ایک ایک کر کے سب اونٹوں کو چھوڑتی گئی کہ قافلے والے جاگ جائیں گے۔ وہ عضباء کے پاس پہنچی، اسے ہلایا تو وہ ایک مطیع و فرماں بردار اور تربیت یافتہ اونٹنی نکلی۔ عورت اونٹنی پر سوار ہوگئی اور اس کا رُخ مدینے کی جانب پھیر دیا۔ عضباء تیزی سے سفر طے کرنے لگی۔ عورت کو جب یقین ہوا کہ وہ دشمنوں کے نرغے سے نکل آئی ہے تو اس نے خوش ہو کر کہا:
’’اے اللہ میں تیرے لئے نذر مانتی ہوں کہ تو نے اونٹنی پر سوار مجھے دشمن کے گھیرے سے نکال دیا تو مَیں اس اونٹنی کو نحر کر دوں گی۔
عورت نجات پا کر مدینہ جا پہنچی۔ لوگوں نے نبی کریمؐ کی اونٹنی پہنچان لی۔ عورت اپنے گھر پر اتر گئی لوگوں نے عضباء کو نبی کریم کے گھر پہنچا دیا۔ وہ عورت گھر سے باہر آئی تو اونٹنی دروازے پر نہیں تھی۔ وہ اس کی تلاش میں نکلی کہ اسے ذبح کر کے اپنی نذر پوری کر سکے۔ ڈھونڈتی ڈھونڈتی نبیؐ کے گھر پہنچ گئی اور آپ کو اپنی نذر سے آگاہ کیا۔
آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ نے تمہیں اس اونٹنی پر نجات دی اور تم نے اس کی وفا کا یہ صلہ دیا کہ اسی کو ذبح کرنے کی نذر مان لی۔ اللہ کی نافرمانی میں مانی ہوئی نذر اور اس شے کی نذر کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی، جو انسان کی ملکیت نہ ہو اور ایسی نذر پوری کرنا بیکار ہے‘‘۔
اس لئے ہمیں چاہئے کہ نرمی، خوش خلقی اور جود و سخا جیسی اعلیٰ انسانی صفات اپنی زندگی کا لازمہ اور اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں اور دیگر مخلوقات تو رہیں ایک طرف! جمادات و اشجار جیسی اشیاء سے بھی نرمی کا برتاؤ کریں۔
رسول اللہؐ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگایا کرتے تھے۔ انصار کی ایک عورت نے پیش کش کی:’’اے اللہ کے رسول! مَیں آپ کے بیٹھنے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ میرے پاس ایک بڑھئی غلام ہے‘‘۔
رسول اللہؐ نے جواب دیا:
’’اگر آپ چاہتی ہوں تو ٹھیک ہے‘‘۔
اس نے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعے کا دن آیا۔ رسول اللہؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو کھجور کا تنابیل کی طرح ڈکرانے لگا۔ اس کی آواز سے مسجد گونج اُٹھی۔ نبی کریمؐ منبر سے اترے، اس سے لپٹ گئے اور اسے چمکارا، کھجور کا تنا اس بچے کی طرح بلکنے لگا جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ خاموش ہوگیا، پھر رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر مَیں اس سے نہ لپٹتا تو یہ قیامت تک اسی طرح روتا رہتا‘‘۔
اشارہ
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرف بخشا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان دوسری مخلوقات پر ظلم ڈھائے‘‘۔

مزید :

ایڈیشن 1 -